کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے سے سدرامیا کا انکار؛ حکومت نے مالی ڈسپلن کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے، بجٹ بحث پر سدرامیا کا جواب
بنگلورو۔28؍مارچ(ایس او نیوز) وزیر اعلیٰ سدرامیا نے آج ریاست کے کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے سے واضح طور پر انکار کرتے ہوئے کہاکہ ریاستی حکومت نے ریاستی خزانے کو مستحکم کرنے کیلئے مقررہ حدود میں رہ کر قرضہ جات کئے ہیں۔ ان قرضوں کے ذریعہ ریاستی حکومت نے عوام کی فلاح وبہبود کی طرف توجہ دی ہے نہ کہ اس رقم کا اصراف کیاجارہا ہے۔ آج ریاستی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے سدرامیا نے کہاکہ کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے اگر مرکزی حکومت کی طرف سے امداد دی جاتی ہے تو ریاستی حکومت ان قرضوں کو معاف کرنے تیار ہے۔ اگر ایسی مدد نہیں ملتی تو ریاستی حکومت کی طرف سے بھی قرضوں کو معاف کرنا ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت اگر تجارتی بینکوں سے کسانوں کی طرف سے لئے گئے 50 فیصد قرضہ جات معاف کردے تو ریاستی حکومت بھی کوآپریٹیو بینکوں سے لئے گئے 50 فیصد قرضوں کو معاف کرنے تیار ہے۔مرکزی حکومت اگر قرضہ جات معاف نہیں کرتی تو ریاستی حکومت بھی معاف نہیں کرسکے گی۔انہوں نے کہاکہ ریاستی حکومت نے بلاسود قرضہ جات کی ادائیگی کی مہلت میں بھی اضافہ کیلئے رضامندی ظاہر کی ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ریاستی حکومت 31 مارچ تک بلاسود قرضہ جات کی ادائیگی اور جو قرضہ جات سود پر دئے گئے ہیں ان کا سود معاف کرنے کی مہلت دے چکی ہے۔اس مرحلے میں بعض ممبروں نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ سود کی ادائیگی کی مہلت میں اضافہ کیا جائے۔اس پر وزیراعلیٰ نے کہاکہ فی الوقت 31 مارچ تک مہلت ہے، توسیع کے سلسلے میں بعد میں سوچا جائے گا۔اس سلسلے میں اراکین کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی طرف سے کسانوں کو بلاسود قرضہ فراہم کرنے کیلئے گزشتہ پانچ سال کے دوران 2881کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ریاستی حکومت زیادہ قرضہ لے کر ریاستی عوام کا بوجھ بڑھانے کی قائل نہیں ہے، قرضہ کی مقررہ حدود میں رہ کر ہی تمام مصارف متعین کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ معاشی ڈسپلن کو بر قرار رکھنے کیلئے حکومت نے ہمیشہ کوشش کی ہے، اور اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے کیلئے حکومتوں کو قرضے لینے پڑتے ہیں، حکومت ہند نے بھی مختلف ذرائع سے اس قدر قرضہ حاصل کیا ہے کہ ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن اس کیلئے چند خطوط مالیاتی اداروں کی طرف سے متعین ہیں جن کو ملحوظ رکھنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔حکومت کرناٹک نے قرضوں کی ان حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ یقینی بنایا ہے کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے منصوبہ سازی کے ساتھ ریاست کے مالیاتی بوجھ کو بھی زیادہ نہ ہونے دیاجائے۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ نوٹ بندی کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کالے دھن پر روک لگانے ، کرپشن کو قابو میں کرنے وغیرہ کیلئے جو قدم اٹھائے ہیں اس کی حکومت نے یا کانگریس پارٹی نے کبھی مخالفت نہیں کی ،بلکہ اگر نوٹ بندی تیاری کے ساتھ کی جاتی تو اس کے اثرات بہتر ہوسکتے تھے۔ جس طریقے سے نوٹ بندی کی گئی اس سے غریبوں ،کسانوں ، چھوٹے تاجروں اور متوسط طبقے کے لوگوں کو پریشانی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے ریاست کے اسٹامپس اور ڈیوٹی کے ذریعہ ہونے والی آمدنی میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔