بنگلورو یکم اگست (ایس او نیوز) ٹریفک سے تنگ راستوں کا نظارہ پیش کرتے ہوئے، شہر کے کئی انتہائی ترقی یافتہ علاقے بھی ایک بڑے اور عملاً ناقابل تسخیر رابطہ اور نقل و حمل کے متبادل کے فقدان کے مسئلہ سے دوچار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال سے چھٹکارے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے؟خاص طور پر آئی ٹی کاریڈور ، ہسور ورڈ، شرجاپور، کورمنگلا اور ایچ ایس آر لے آؤٹ جیسے علاقوں میں خاص مصروفیت کے اوقات میں سواریوں کی حد سے بڑھی ہوئی تعداد ٹریفک اژدھام کے بھیانک خواب کا نظارہ پیش کرتی ہے۔
حالانکہ بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی مگر میٹرو ریل کی تکمیل ابھی دس سال پیچھے ہے اور مضافاتی ریل خدمات کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ نما میٹرو کے پہلے مرحلہ کی دو لائنیں ان علاقوں سے کہیں قریب بھی ہو کر نہیں گزرتیں۔آوٹر رنگ روڈ کے راستہ پر مبینہ سلک بورڈ اورمارتہلی کے درمیان میٹرو کی دوڑ یقیناً شرجا پور روڈ اور اس سے متصل علاقوں کو کافی راحت فراہم کر سکتی ہے مگر یہ خواب بھی ابھی کچھ سالوں تک تعبیر حاصل کرنے والا نہیں ہے، شہر کی عوام، شہری رضاکار اور ٹریفک پولیس سبھی اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ یہ متبادل راستے مستقبل قریب میں اور جلد فراہم ہونے والے نہیں ہیں۔کچھوے کی رفتار سے رینگتی ہوئی ٹریفک کے پیش نظر شہر کی پولیس نے ان علاقوں میں یو ٹرن کو محدود کرنے کے ذریعہ ٹریفک پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔شرجا پور ہرلور جنکشن پر شدید ٹریفک پر قابو پانے کے لئے راہگیروں کے راستوں پر بھی قدغن لگایا گیا ہے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ وہ دوسرے مقامات پر صرف منتقل ہو گیا ہے۔گاڑی سوار اب بھی شکایت کرتے ہیں کہ شرجا پور روڈ پر صرف دو کلو میٹر کا سفر آدھے گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔اس راستہ پر روزانہ آنے جانے والے ایک سوار کا کہنا ہے کہ ’’صرف دس سال قبل یہ راستہ بالکل کھلا ہوا رہتا تھا ،مگر اب ا س علاقہ میں کھمبیوں (مشروم)کی طرح بڑھتے ہوئے اپارٹمنٹ اور آئی ٹی کمپنیوں کی وجہ سے یہاں سواریوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے‘‘۔
کورمنگلا اور آس پاس کے علاقوں کے مکینوں کے لئے مستقبل بعید میں مضافاتی ریل بھی کوئی راحت پہنچانے والی نہیں ہے۔اندرا نگر ایک سو فیٹ کے راستہ کو مڈیوال سے جوڑنے کے لئے اندرونی رنگ روڈہی اہم رابطہ کا راستہ ہے۔مصروف اوقات ہوں یا نہیں ، یہاں سونی ورلڈ جنکشن پر سواریاں راستہ سے چپک کر کھڑی رہ جاتی ہیں۔رنگ روڈ پربار بار ٹریفک کا اژدھام ، موٹر گاڑی سواروں کے لئے ہر مرتبہ کا ایک ڈراؤنا خواب ہوتاہے۔مستقبل قریب میں پرانے ہوائی اڈہ کے اطراف مقیم افراد کو کوئی میٹرو لائن بھی راحت نہیں پہونچا سکتی۔مارتہلی اور ہوسا کیرے ہلی کے درمیان مجوزہ 21.31 کلو میٹر طویل میٹرو لائن کا کام بھی اگلے دس سالوں کے بعد ہی حقیقت کا روپ حاصل کرنے والا ہے۔ونڈ ٹنل روڈ اور سورنجان داس روڈ کے چوراہے پر ٹریفک کا زبر دست اژدھام روزانہ کا معمول ہے،جو لوگ اپنی سواریوں پر شہر کی جانب جانے کے لئے نکلتے ہیں انہیں ونڈ ٹنل روڈ پر تقریباً ایک کلو میٹر طویل سواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح شہر کے ہر ایک علاقہ میں ٹریفک کی اسی بد ترین صورت حال کے پیش نظر ریاستی حکومت نے شہر کے کئی مضافاتی علاقوں میں الیویٹڈ کاریڈور کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور اس کو منظوری بھی دیدی ہے ، لیکن شہری رضاکاروں کی طرف سے اس کے خلاف شدید احتجاجات اور مخالفتوں کا ایک دور شروع ہو گیا ہے، شہری رضاکار سوال کرتے ہیں کہ کیا ان مقامات پر سگنل فری کاریڈور اور الیویٹڈ کاریڈوراس مسئلہ کا حل ہو سکتے ہیں؟ لیکن کس قیمت پر؟ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر سانئنسی انداز میں بغیر مناسب منصوبہ بندی کے شہر بھر میں کانکریٹ ڈھانچوں کی تعمیر کی وجہ سے جہاں مزید ٹریفک اژدھام کی صورت حال پیدا ہونے کے اندیشے ہیں وہیں اس کے غلط اثرات شہر کے ماحول اور موسم پر بھی پڑ نے والے ہیں۔شہری رضاکاروں کی شدید مخالفت کے پیش نظر اب ریاستی وزیر اعلیٰ نے بھی یہ اعلان کر دیا ہے کہ الیویٹڈ کاروڈور اسی وقت تعمیر کئے جائیں گے جب شہری انہیں پسند کریں گے، یعنی شہریوں کی مرضی کے بغیر الیویٹڈ کاریڈور کی تعمیر کا کام اختیار نہیں کیا جائے گا۔