طلاق ثلاثہ بل پر مسلم رہنماؤں کو اعتراض، مسلم طبقہ کے ماہرین سے نہیں لیا گیا مشورہ
نئی دہلی3دسمبر ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)ملک کے مسلم رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں تین طلاق سے متعلق بل لانے کے حکومت کے فیصلے کی یہ کہہ کر سخت تنقید کی ہے کہ اس نے مسلم طبقہ کے ماہرین سے مشور ہ کئے بغیر یہ بل تیار کیا ہے جس میں تین سال کی قید بامشقت کی تجویز ہے۔ سینئر نوکر شاہ اور سچر کمیٹی کے افسر بکار خاص ڈاکٹر ظفر محمود نے کہا کہ ہندو کمیونٹی میں بھی کئی ایسی قدامت پسند سماجی روایتیں ہیں جن سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ صرف مسلم کمیونٹی کا ہی نہیں بلکہ ان کی بھی اصلاح کرے۔
ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا تھا کہ وہ تین طلاق کے رواج پر عمل کے خلاف ہیں ، کیونکہ وہ سراسر غیر اسلامی ہے لیکن حکومت جس طرح سے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر متعلقہ قانون میں ترمیم کرنے جا رہی ہے، وہ اس کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔ اگر حکومت نے بل تیار کرتے وقت متعلقہ کمیونٹی کے مختلف فریقوں سے تبادلہ خیال کیا ?وتا تو بہتر ہوتا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ حکومت نے مسلم پرسنل لاء سے منسلک بل تیار کرتے وقت مسلم مذہبی ماہرین کے ساتھ غور و خوض کرنے کی روایت کو توڑا ہے۔مسٹرقاسم رسول الیاس نے کہا کہ مسلمانوں سے متعلق اب تک صرف تین بڑے قانون بنے ہیں اور ان کو تیار کرنے کے پورے عمل میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ قوانین: د ی مسلم پرسنل لا (شریعہ) ایپلیکیشن قانون 1937، مسلم میرج بعد از طلاق قانون 1939 اور مسلم خواتین (طلاق کے حق کی حفاظت) سے متعلق 1986 کا قانون ہیں۔مودی حکومت نے وزارتی گروپ کے تبادلہ خیال کے بعد تین طلاق سے متعلق بل تیار کیا ہے۔ اس گروپ میں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر قانون روی شنکر پرساد، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور وزیر خارجہ سشما سوراج شامل ہیں۔بل میں تین طلاق کو 'غیر ضمانتی' اور 'سنگین جرم' قراردیا گیا ہے اور اس کے لئے تین سال قید کی سزا اور جرمانے کی بھی تجویز ہے۔ بل کے مطابق اگر کسی عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ عدالت میں جا سکتی ہے اور اپنے اور زیر کفالت بچوں کے لئے بھتہ اور چھوٹے بچوں کی نگرانی کا حق مانگ سکتی ہے۔ مسودہ بل کے مطابق طلاق بدعت کو 'غیر قانونی اور کالعدم' تصور کیا جائے گا۔