یڈیورپا کے خلاف فوجداری مقدمات کا احیاء،محکمۂ قانون سے مشاورت کے بعد ثبوت پیش کرنے ریاستی حکومت کی تیاری
بنگلورو،27؍فروری(ایس او نیوز)سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یڈیورپا کی طرف سے ریاستی حکومت کو نشانہ بنانے کیلئے جاری مسلسل مہم کے درمیان ریاستی حکومت نے بھی یڈیورپا کے خلاف زیر التواء فوجداری مقدمات کی از سر نو جانچ کروانے کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔ یڈیورپا کے خلاف بحیثیت وزیر اعلیٰ اراضی ڈی نوٹی فکیشن سمیت متعدد مقدمات لوک آیوکتہ عدالت میں دائر کئے گئے تھے۔ ان میں سے یڈیورپا نے تمام مقدمات کا چیلنج کیا تو ریاستی ہائی کورٹ نے 25 مقدمات میں سے یڈیورپا پر درج پندرہ مقدمات کو کالعدم قرار دے دیاتھا۔ ہائی کورٹ کی طرف سے جن مقدمات کو باطل قرار دیا گیا ،ان مقدمات کو دوبارہ کھولے جانے کے سلسلے میں ریاستی حکومت نے محکمۂ قانون سے گزشتہ سال مشورہ طلب کیا تھا، اور محکمۂ قانون نے ان کیسوں میں دستیاب شواہد کی بنیاد پر رائے دی تھی کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے تو یڈیورپا کے خلاف فوجداری مقدمات دستیاب ثبوت کی بنیاد پر ہی ثابت کئے جاسکتے ہیں۔ محکمۂ قانون کی اسی رائے کو بنیاد بناکر ریاستی حکومت نے ان معاملات میں یڈیورپا کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی عرضی دائر کردی ہے، اور وہاں ان پر سماعت جاری ہے۔ ماہرین قانون نے ریاستی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ یڈیورپا کے خلاف درج بعض مقدمات میں باقاعدہ طور پر پیروی کی گئی اور ثبوت کو ٹھیک طریقے سے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو چند میں یڈیورپا کو مجرم ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ ذرائع سے موصولہ اطلاع کے مطابق کل شہر میں منعقدہ کے پی سی سی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں اے آئی سی سی جنرل سکریٹری ڈگ وجئے سنگھ نے بھی ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ یڈیورپا کے خلاف کرپشن کے جو مقدمات ہیں ان پر کارروائی میں سختی لائی جائے۔ یہ بھی بات سامنے آئی کہ رشوت ستانی کے بہت سارے معاملات میں یڈیورپا نے اپنے ادارہ پریرنا ایجوکیشن ٹرسٹ کیلئے بذریعہ چیک رشوت حاصل کی ہے، اسی لئے ایک بار پھر ان معاملات کی لوک آیوکتہ یا انسداد کرپشن بیورو کے ذریعہ جانچ کرائی جائے اور عدالت کے سامنے ثبوت پیش کئے جائیں۔ ڈگ وجئے سنگھ کی ہدایت کے بعد وزیراعلیٰ سدرامیا نے اس سلسلے میں محکمۂ قانون سے ایک بار پھر مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان دنوں بجٹ کی تیاریوں میں مصروف وزیر اعلیٰ سدرامیا نے چند دنوں بعد محکمۂ قانون کے افسران کو طلب کرکے اس سلسلے میں ان سے رائے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔