کانگریس نے لوک سبھا میں بھی طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کی تھی کرناٹک وقف بورڈ کے انتخابات میں تاخیر افسوسناک :ڈاکٹر کے رحمٰن خان
بنگلورو،15؍جنوری(ایس او نیوز) لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کے خلاف کانگریس نے کوئی آواز نہیں اٹھائی یہ ایک غلط خبر ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پیداوار ہے جس کو اسی کی ایماء پر میڈیا نے پھیلایاہے۔ سابق مرکزی وزیر ورکن راجیہ سبھا ڈاکٹر کے رحمٰن خان نے آج یہاں اپنی رہائش گاہ پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔
انہوں نے کہاکہ لوک سبھا میں بھی کانگریس نے متنازعہ بل کو محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ایوان میں اکثریت کی بنیاد پر حکمران بی جے پی نے اس بل کو منظور کروالیا۔ انہوں نے بتایاکہ راجیہ سبھا میں اس بل کو روکے رکھنے میں کانگریس کا بہت بڑا کردار ہے۔ راجیہ سبھا میں اس بل کی پیشی سے ایک دن قبل دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندوں کے ساتھ شب تین بجے تک گفتگو ہوئی جس کا ذکر بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے اپنے بیان میں کیاہے۔ کرناٹک وقف بورڈ انتخابات کروانے میں جاری ٹال مٹول پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بورڈ کی میعاد ختم ہوئے تقریباً 2؍سال کا عرصہ گزر چکاہے۔ پچھلے 2؍سال سے حکومت بورڈ کے لئے نئے ضوابط تیار کرنے کے بہانے انتخابات منعقد کرنے سے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ جبکہ مرکزی وقف قانون کے تحت بورڈ کے لے اڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر چند ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر اڈمنسٹریٹر مقرر کربھی دیا گیا ہے تو کم ازکم 3؍ماہ میں انتخابی عمل مکمل کرانا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ پچھلے دوسال سے صرف وقف بورڈ کے الیکٹورل کالج اور ضوابط کی تیاری کے بہانے انتخابات کو ٹالا جارہاہے۔
انہوں نے بتایاکہ مختلف معاملات میں بڑے بڑے قوانین کے لئے ضوابط کافی تیزی سے مرتب کئے جاتے ہیں۔ لیکن وقف بورڈ کے لئے ضوابط کی تیاری کے عمل میں بدنیتی حائل ہوجانے کی وجہ سے 2؍سال کے عرصہ میں بھی ضوابط مکمل نہیں ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ان ضوابط کاانہوں نے سرسری مطالعہ کیاہے۔ اتنے عرصہ بعد بھی مکمل نہ ہونے والے ضوابط بہت ہی کمزور اور نامکمل ہیں۔ جن کی رو سے اوقافی املاک کا مکمل تحفظ نہیں ہوگا۔ اب انتظامیہ کی جانب سے ضوابط کے نام پر جو چند کاغذات حکومت کو تھمائے گئے ہیں وہ بھی بے شمار خامیوں کا پلندہ ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ یہ تمام خامیاں دانستہ ہیں تاکہ وقف بورڈ کے انتخابات کو مزید ٹالا جاسکے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ سدارامیا حکومت کی موجودہ میعاد میں وقف بورڈ کا انتخاب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مرکزی وقف قانون کی رو سے تمام ریاستوں کے وقف بورڈس خود مختار اور آزاد ادارے ہیں۔ جن میں حکومتوں کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن وقف گرانٹ کی فراہمی کے نام پر ریاستی حکومت وقف بورڈ کی کارکردگی میں راست مداخلت کررہی ہے جو بالکل درست نہیں۔ موجودہ نظام کے تحت وقف گرانٹ صرف متعلقہ وزیر کی سفارش پر جاری کیا جاتاہے۔ جبکہ ایسانہیں ہونا چاہئے۔ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ مکمل رقم وقف بورڈ کے حوالہ کردے اور وقف بورڈ ضوابط کے تحت گرانٹ جاری کرنے کے لئے جو کسوٹی مقرر کی ہے اس کے تحت ہی اوقافی اداروں کو گرانٹ جاری کرے۔ موصوف نے بتایاکہ ضوابط میں واضح طورپر کہاگیاہے کہ وقف گرانٹ صرف ایسے اداروں کو دیا جاسکتاہے جن کی سالانہ آمدنی 50؍ہزار روپئے سے کم ہو۔ ساتھ ہی گرانٹ کے لئے 2؍لاکھ روپئے حد مقرر کی گئی ہے۔ لیکن ریاستی حکومت نے اسے اپنے اختیار میں لے کر وزراء کی سفارش پر مختلف اداروں کو کروڑوں روپئے جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیاہے جو ضوابط کی عین خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹر رحمٰن خان نے بتایاکہ وقف بورڈ انتخابات جلد کرانے کے سلسلہ میں انہوں نے اب تک بشمول وزیراعلیٰ سدارامیا چیف سکریٹری وزیر اقلیتی بہبود واوقاف اور متعلقہ اعلیٰ افسروں کو 10؍سے زائد مکتوب لکھے ہیں لیکن اس معاملہ میں اب تک ان کا کوئی جواب نہیں ملاہے۔ ریاست میں اقلیتوں کے لئے پچھلے بجٹ میں دی گئی رقم سے متعلق سوال پر موصوف نے بتایاکہ 2؍لاکھ کروڑ روپئے کے ریاستی بجٹ میں اقلیتوں کی فلاح وبہبودی کے لئے اگر 10؍فیصد بھی دیا جاتا تو یہ 20؍ہزار کروڑ روپئے ہوتے ہیں۔ ڈھائی تین ہزار کروڑ روپئے دے دینے سے اقلیتوں کی فلاح وبہبود ممکن نہیں ہوسکتی۔