بنگلورو۔4؍جنوری(ایس او نیوز) کے پی سی سی صدر دنیش گنڈو راؤ نے ریاستی جے ڈی ایس اور کانگریس اتحاد میں شامل دونوں پارٹیوں میں بعض امور پر اختلافات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختلافات اس قدر سنگین نہیں ہیں کہ جن سے مخلوط حکومت کسی طرح کا خطرہ ہو۔
اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے وزیر بر ائے تعمیرات عامہ ایچ ڈی ریونا سے گزارش کی کہ بعض امور پر وہ برسر عام بیان بازی سے گریز کریں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ریاست میں کانگریس جے ڈی ایس اتحاد اپنی میعاد کے پانچ سال پورے کرے گا جہاں تک دونوں پارٹیوں کے درمیان اختلافی نکات ہیں وہ ریونا سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ ان پر عام بحث نہ کی جائے اور دونوں پارٹیاں بیٹھ کر آپس میں معاملات سلجھالیں۔
انہوں نے کہاکہ انتخابات میں دو الگ الگ محاذوں سے میدان میں اترنے کے بعد سیکولرزم کی خاطر متحد ہونے والی دو پارٹیوں کے درمیان چند معاملوں میں اختلافات فطری بات ہے۔ لیکن باہمی بات چیت کے ذریعے ان تمام مسائل کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ سرکاری بورڈز اور کارپوریشنوں کے چیرمینوں کے تقرر پر بھی کانگریس اور جے ڈی ایس میں اختلافات کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ بھی آپسی بات چیت کے ذریعے سلجھا لیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس اور جے ڈی ایس اتحاد برقرار رہے گا اور دونوں پارٹیاں مل کر ہی ان انتخابات کا سامنا کریں گی، کانگریس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ جے ڈی ایس کے بغیر لوک سبھا انتخابات لڑناچاہتی ہے، جہاں تک جے ڈی ایس کی طرف سے ایسی تیاری کی بات ہے اس کے بارے میں وہ ناواقف ہیں ، اسی لئے اس پر تبصرہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔اگر جے ڈی ایس نے الگ مقابلے کا فیصلہ کرلیا تو اس کے بعد بھی مخلوط حکومت اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کرناٹک میں کسانوں کے قرضوں کی معافی کو ایک ناٹک قرار دئے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دنیش گنڈو راؤ نے کہاکہ مودی جھوٹوں کے سردار ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے اور حقائق کا جائزہ لئے بغیر بیان دینا مودی کی فطرت ہے۔ پانچ سال قبل ایسے جھوٹ کا سہارا لے کر انہوں نے ملک کے عوام کوگمراہ کیا اب اگر وہ سوچتے ہیں کہ اسی طرح کے جھوٹ سے عوام کو دوبارہ گمراہ کریں گے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔انہوں نے کہاکہ ریاستی مخلوط حکومت نے حسب وعدہ کسانوں کے قرضے معاف کئے ہیں۔ اب تک بڑی تعداد میں کسانوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، لگ بھگ ساٹھ لاکھ کسانوں کے قرضے جن کی مجموعی رقم 360 کروڑ کے آس پاس ہے معاف کردی گئی ہے۔ دنیش نے کہاکہ وزیر اعظم مودی کو حکومت کرناٹک کی طرف سے کسانوں کے قرضوں کی معافی کی طرف توجہ دینے کی بجائے مرکزی حکومت کے ذریعے قومی بینکوں سے کسانوں نے جو قرضے لئے ہیں ان کی معافی پر توجہ دینی چاہئے۔
دنیش نے کہاکہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم نے ملک کے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ بیرون ممالک میں جمع کالادھن واپس لانے کی بات کہی تھی، 55ماہ بیت گئے اب تک ایک روپیہ بھی بیرونی ملکوں سے واپس نہیں آیا۔ ملک کے ہر شہری کے بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا بعد میں اسے جملہ قرار دیا گیا۔ اب کرناٹک حکومت اپنے وعدے پر عمل کررہی ہے تو یہ مودی کو ہضم نہیں ہورہا ہے۔ ریاستی حکومت نے کسانوں کے قرضوں کی معافی کے لئے جو اسکیم ترتیب دی ہے سارے ملک میں اسے ماڈل قرار دیا جارہا ہے۔ مودی کو چاہئے کہ دو دن بنگلور میں ٹھہر کر اس ماڈل کا جائزہ لیں اور مرکزی سطح پر اس ماڈل کا نفاذ کریں۔ دنیش نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت نے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
حکومت کرناٹک نے 8165 کروڑ روپیوں کے قرضے معاف کردئے ہیں ، آنے والے دنوں میں قومی بینکوں کے قرضے بھی معاف کئے جائیں گے۔ ایسے میں مودی خود فیصلہ کریں کہ کون کسانوں کے حق میں ہے اور کون خلاف۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم مودی کو اگر کرناٹک میں کسانوں کے قرضوں کی معافی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں تو انہیں چاہئے کہ سرکاری افسروں سے معلومات حاصل کریں۔