مرکزی حکومت سے روہنگیائی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
نئی دہلی،20ستمبر(آئی این ایس انڈیا؍ایس او نیوز)خستہ حال مہاجر روہنگیائی مسلمانوں کی حالت زاراور انھیں ہندستان سے برما واپس بھیجنے کے حکومت ہندکے انسان مخالف رویے پر شدید کرب و بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ جو رو ہنگیائی مسلمان برما حکومت اور بدھسٹوں کے ظلم و جبر سے تنگ آکر ہندستان میں کس مپرسی کی پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں، انھیں حکومتی تحفظ فراہم کرنا اور انھیں قانونی پناہ گزیں کا درجہ دے کر ان کی جان اور مال کو تحفظ فراہم کرنا ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پچھلے پانچ چھہ سال سے برما کی افواج اور وہاں کے مقامی بدھسٹ باشندے ان روہنگیائی مسلمانوں کو غیر قانونی شہری بتاکر ان کے ساتھ ظلم و جبر اور قتل و تشدد کا معاملہ روا رکھے ہوئی ہے،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان کے ظلم و جبر سے تنگ آکر بنگلہ دیش، ہندستان اور دوسرے سرحدی ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایسی صورت میں ان مجبور و بس افراد کو کسی دور ازکار اندیشہ کی بنیاد پراور یہ مشتہر کر کے کہ ان کی وجہ سے ملک کی داخلی سلامتی کو خطرہ ہے اور ان کے کسی دہشت گرد اور گمراہ جماعت کے ہاتھوں میں چلے جانے کا امکان ہے،یہ باتیں ان لٹے پٹے افرادکے تحفظ کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی اور عالمی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ برما کے یہ مظلوم مسلم شہری دہلی سمیت ہندستان کے سرحدی علاقے میں رہ رہے ہیں، اس سے پہلے بھی ہندستان میں دوسرے ممالک و علاقے سے ہجرت کرکے آنے والے یہودی اور تمل اور کشمیری پنڈت وغیرہ بھی آکر پناہ لیے ہوئے ہیں، مگر کبھی ان کے خلاف داخلی سلامتی کا بہانہ بنا کر انھیں یہاں سے نکالنے اور انھیں اپنے ملک بھیجنے کا کسی نے مطالبہ نہیں کیا، بلکہ حکومت نے انھیں قانونی مہاجر اور پناہ گزیں تسلیم کر رکھا ہے اور ان کے لیے کالونی اور زمینی خطہ بھی مختص کر رکھا ہے۔ اس لیے ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان مظلوم اور بے گھر روہنگیائی مسلمانوں کو بھی تحفظ اور پناہ دینا حکومت ہند کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔مولانا قاسمی نے کہا کہ یہ بے چارے روہنگیائی مسلمان جن کے پاس دو وقت کا کھانا نہیں ہے، جو کھلے آسمانوں میں جلاتی چلچلاتی دھوپ میں جھگی جھونپڑی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کے بارے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بات کرنا اور انھیں یہاں سے اپنے ملک ددوبارہ بھیجنے کے لیے عدالت عظمی میں حلف نامہ داخل کرنا اور اس قسم کی حوصلہ شکن باتیں کرنا سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی بنیاد پر ہمیں ان مہاجرین کو اس وقت تک رہنے کا ذمہ لینا چاہیے جب تک وہاں پر امن حالات پیدا نہ ہوجائیں۔بلکہ حکومت ہند کوایک پڑوسی ہونے کے ناطے برمی حکومت کی اس غیر قانونی کارروائی کے خلاف عالمی عدالت میں اپنا احتجاج بھی درج کرنا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ اقوام متحدہ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں پر اس وقت سب سے زیادہ ظلم ہورہا ہے،برما میں اسٹیٹ دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی۔ اور پھر جب یہ لوگ امن و چین کے ساتھ حکومت سے کسی قسم کا مطالبہ کیے بغیراور کوئی بھی نقص امن کی کوشش کیے بغیر عام شہریوں کی امدادی رقوم کی بنا پر جی رہے ہیں، تو ان کے خلاف سلامتی کا عذرتراش کر سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنا اور انھیں نکالنے کے معاملات میں عدالت سے کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی اپیل کرنا سراسرغیر انسانی کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مسلم تنظیموں اور امن پسند افراد کو برما حکومت کی اس نسل کشی کے خلاف عالمی پیمانے پر احتجاج درج کرانا چاہیے، ان کے ساتھ کاروبار اور لین دین کا بائیکاٹ کرنا چاہیے،تاکہ کوئی بھی حکومت مستقبل میں اپنے شہریوں کے ساتھ اس قسم کا ماورائے انسانیت ظلم و ستم نہ کرسکے۔