مودی حکومت کے پچھلے پانچ بجٹ: بے شمار اعلانات، زمین پر کام صفر

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 2nd February 2019, 12:28 PM | ملکی خبریں |

نئی دہلی، 2؍فروری (ایس او نیوز؍ایجنسی) مالی نظام درہم برہم ہو چکا ہے، گاؤں کی حالت خراب ہے، نوکریاں دینے میں حکومت ناکام ہو رہی ہے اور تمام سرکاری منصوبوں کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنی ابتدائی دو بجٹ تقاریر حکومت کی ترجیحات بتانے میں خرچ کر دیں، بقیہ تین اپنی حکومت کی ناکامیوں پر معافی مانگنے میں۔

پانچ بجٹ تقاریر میں بی جے پی حکومت کی پوری توجہ اسمارٹ سٹی، اسکل انڈیا، سوچھ بھارت، ڈیجیٹل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا وغیرہ پر مرکوز رہیں۔ لیکن اب اس کی مصیبت یہ ہے کہ ان تمام شعبہ جات میں دکھانے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کر چکی ہے اور وہ اپنی مدت کار میں بہت زیادہ مصروف بھی نظر آتی رہی لیکن اب اس کی حالت اس طالب علم کی طرح ہے جسے امتحان میں کامیاب ہونے لائق نمبر پانے کے لئے بھی اضافی وقت درکار ہے۔ لیکن کیا اس اضافی وقت میں بھی امتحان میں وہ کامیاب ہو پائے گی؟۔

ہوا ہوگیا مالی خسارہ کم کرنے کا دعویٰ: جولائی 2014 میں جب حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا تو وزیر خزانہ نے اشارے دیئے تھے کہ مالی نظم و ضبط پر سختی سے عمل کریں گے اور مالی خسارے کو 4.5 فیصد تک لے کر آئیں گے۔ لیکن یہ جملہ ثابت ہوا اور رواں مالی سال کے دوران اکتوبر تک ہی مالی خسارہ 3.3 فیصد سے تجاوز کر گیا۔ امکان ہے کہ حکومت اپنے ہدف سے 15-20 فیصد تک دور نظر آ رہی ہے۔

صرف کاغذوں پر بنیں اسمارٹ سٹیز: پہلے بجٹ میں مودی حکومت نے اسمارٹ سٹی، اسکل انڈیا، سوچھ بھارت، ڈیجیٹل اندیا اور سب کے لئے رہائش وغیرہ کے جو منصوبے لاگو کیے تھے ان کے لئے 50 سے 100 کروڑ روپے تک کا ہی بندو بست کیا گیا۔ ان میں سے متعدد منصوبے تو پٹری سے اتر چکے ہیں۔

پہلے بجٹ میں حکومت نے کہا تھا، ’’این نیشنل انڈسٹریل کاریڈور اتھارٹی‘ بنائی جا رہی ہے جس کا صدر دفتر پونے میں ہوگا اور اس سے اسمارٹ سٹیز منسلک رہیں گی۔‘‘ لیکن دو سال بعد اس اعلان کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔

جن دھن کھاتوں سے بینکوں کی حالت خراب: دوسرا بجٹ تو مزید مایوس کن ثابت ہوا۔ اس میں بھی صرف وعدے کیے گئے اور کوئی حقیقی منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔ کہا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر حالات سازگار نہیں ہیں، پھر بھی جن دھن منصوبہ کے لئے جیٹلی حکومت کو شاباشی دی گئی۔ انہوں نے کہا، ’’کسی نے سوچا ہوگا کہ صرف 100 دن میں 12.5 کروڑ خاندانوں کو مالی مرکزی دھارے سے منسلک کر دیا جائے گا۔‘‘

لیکن آج جن دھن منصوبہ کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ جنوری 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 7.85 کروڑ یا 23 فیصد جن دھن کھاتے غیر فعال پڑے ہیں یا ان میں کوئی پیسہ ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کروڑوں کھاتے ایسے بھی ہیں جن میں نام نہاد رقم موجود ہیں، وہ بھی ان میں جنہیں بینک ملازمین نے خود پیسے جمع کر کے فعال رکھا ہے۔

دوسرے بجٹ میں 2022 تک ہر ایک شہری کے سر پر چھت دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ صرف دیہی بجلی کاری کا کام ہوا وہ بھی اس لئے کیوںکہ 96 فیصد کام تو گزشتہ حکومت مکمل کر چکی تھی۔

فصل بیمہ سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ملا: تیسرے بجٹ میں بھی جیٹلی کے پاس اپنی کامیابی ظاہر کرنے کے لئے اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ ایسے حالات میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ حکومتوں اور عالمی پس منظر کو ملک کے مالی بحران کے لئے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے اس بجٹ میں ’پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا‘ کا ڈھنڈورا پیٹا۔ لیکن یہ منصوبہ تو صرف ان کسانوں کے لئے تھا جنہوں نے قرض لیا ہوا تھا۔ جیسے ہی کسان قرض سے آزاد ہوتے گئے وہ فصل بیمہ منصوبہ سے باہر ہوتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 2017 میں 4.03 کروڑ کسان اس منصوبہ کا حصہ تھے جو 2018 کے موسم خریف میں کم ہو کر 3.33 کروڑ رہ گئے۔

بے روز گاری کی گونج، حکومت قوت سماعت سے محروم: ان سب کے درمیان حکومت پر بے روزگاری اور نوکریوں کا دباؤ بننے لگا۔ وزیر خزانہ نے اعلان کر دیا کہ نوکریاں پیدا کرنے والی صنعتوں کے تمام نئے ملازمین کی پنشن اسکیم کا 8.33 فیصد حصہ پہلے تین سال تک حکومت برداشت کرے گی۔ اس سے غیر رسمی شعبہ کی کچھ نوکریاں رسمی شعبہ میں تو منتقل ہو گئیں لیکن زمینی سطح پر اس سے روزگار پیدا نہیں ہو سکا۔

اسی دوران وزیر خزانہ نے 2015 میں ایوان کو مطلع کیا کہ حکومت نے نیشنل کیرئر سروس اسکیم شروع کی ہے۔ اس میں تقریباً 4 کروڑ نوجوانوں نے درخواست دی لیکن نوکری محض 7 لاکھ کو حاصل ہو سکی یعنی روزگار حاصل کرنے والوں کا تناسب محض 2 فیصد ہی تھا۔

چوتھا بجٹ آنے سے پہلے تو وزیر اعظم نوٹ بندی کا حملہ کر چکے تھے۔ کہا گیا تھا کہ اس کے لئے حکومت کی نیت بدعنوانی، کالے دھن کو باہر نکالنا، نقلی نوٹوں کو ختم کرنا اور دہشت گردی کو ملنے والے فنڈ پر روک لگانا ہے۔ لیکن وزیر خزانہ نے اس کا دائرہ بڑا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد ٹیکس چوری کو روکنا تھا، اس سے حکومت کو ٹیکس ملے گا جو غریبوں کی بہبود پر صرف ہوگا۔ بینکوں میں رقم ہوں گی تو شرح سود میں کمی آئے گی۔ وزیر خزانہ کو امید تھی کہ حکومت کو کچھ اضافی رقم حاصل ہوگی لیکن یہ ہو نہ سکا۔

نوٹوں کی چھپائی کی لاگت بھی نہیں نکلی: حکومت نے ’پردھان منتری کلیان یوجنا‘ شروع کی لیکن اس کے تحت صرف 21 ہزار لوگوں نے کل 4900 کروڑ روپے کا ہی اعلان کیا۔ اس رقم سے تو نئے نوٹ چھاپنے کی لاگت تک نہیں نکل پائی۔ قطاروں میں لگے 100 لوگوں کی جان چلی گئی اور ملک آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

بی جے پی کے انتخابی وعدوں میں کروڑوں نوکریوں کا وعدہ بھی تھا لیکن یہ بھی جملہ نکلا۔ حکومت نے ملک کے 600 اضلاع میں اسکل سینٹرز قائم کر دیئے جس کا انجام یہ نکلا کہ ماہر بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔

پانچواں بجٹ آتے آتے دیہی ہندوستان پر ’مودی نامکس‘ یعنی مودی کی معیشت کا کالا سایہ اور گہرا ہو چکا تھا۔ تب حکومت نے سوچا کہ اسے ایک مرتبہ پھر شعبہ زراعت پر توجہ دینی چاہیے۔

ایم ایس پی سے 50 فیصد زائد آمدنی، یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا: حکومت نے آناً فاناً میں اپنا انتخابی منشور جھاڑ پونچھ کر نکالا اور کہا کہ وہ کسانوں کو فصلوں کی لاگت سے 50 فیصد زیادہ قیمت دینا یقینی بنائے گی۔ یعنی کسانوں کو فصل کی لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ آمدنی ہوگی۔ ایک سال مکمل ہو چکا ہے لیکن کم از کم سپورٹ پرائس میں اضافہ کے اعلان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکا۔ کسان آج بھی اپنی فصل اونے پونے داموں پر بیچنے کو مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کسانوں کو مجبوری میں اپنی فصلوں کو ایم ایس پی سے 60 فیصد کم تک میں فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت پانچ بجٹ پیش کر چکی ہے لیکن وعدے وفا کرنے کا ریکارڈ مایوس کن ہے:  یو پی اے حکومت کے آخری دو سالوں میں شرح ترقی میں گراوٹ درج کی گئی تھی اور 2014 میں اقتدار این ڈی اے کے ہاتھ میں آ گیا، چونکہ اس نے ایف آر بی ایم یعنی مالی حصہ داری اور بجٹ انتظام کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن 2019 میں حکومت ایف آر بی ایم کے راستہ سے پوری طرح بھٹک چکی ہے، نوکریوں کے محاذ پر وہ ہوا میں ہاتھ پیر چلا رہی ہے۔

سال 2014 میں بی جے پی کو سنہرا موقع حاصل ہوا تھا اور وہ زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن پانچ سال بعد اس کے پاس اب دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

معاف کیجئے گا پیوش گوئل جی، اب آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

سپریم کورٹ نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو دی یکم جون تک کے لئے عبوری ضمانت ؛ کیا جاری انتخابات پر پڑے گا اس کا اثر ؟

سپریم کورٹ نے آج جمعہ کو  دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو یکم جون تک 21 دنوں کے لیے عبوری ضمانت دے دی۔ عام آدمی پارٹی (AAP) کے قومی کنوینر کو  سات مرحلوں میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے پولنگ ختم ہو نے کے ایک دن بعد یعنی 2 جون کو خودسپردگی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

بی جے پی مذہب کے نام پر الیکشن لڑ رہی ہے: محبوبہ مفتی

  پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ بی جے پی لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کرنے کے بجائے مذہب کے نام پر الیکشن لڑ رہی ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوک سبھا الیکشن کے پہلے تین مرحلوں میں بی جے پی بری طرح سے ہار رہی ہے ان کا کہنا تھا: 'اننت ناگ – راجوری – پونچھ میں ...

کیا بی جے پی تیسرے مرحلے کو آخری مرحلہ سمجھ کر شکست قبول کرے گی؟اکھلیش یادو

لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے منگل کو اتر پردیش میں تیسرے مرحلے کے لیے 10 سیٹوں پر ووٹنگ کے بعد، سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اور یوپی کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر سخت تنقید کی ہے۔ ایک طرف ایس پی لیڈر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کا منشور جاری کیا ہے تو ...

راہل گاندھی کا مودی کو اڈانی اور امبانی کے ہاں ای ڈی اور سی بی آئی بھیجنے کا چیلنج

اڈانی اور امبانی کے حوالے سے بدھ کو راہل گاندھی کو نشانہ بنانا وزیراعظم نریندر مودی کو مہنگا پڑ گیا۔ راہل گاندھی نے  اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے  وزیراعظم کوچیلنج کیا کہ وہ اڈانی اور امبانی کے خلاف جانچ کیوں نہیں کرواتے،ان کے ہاں ای ڈی ،  سی بی آئی  اور انکم ٹیکس محکمہ ...

بی جے پی کی پوری مشینری راہل گاندھی سے متعلق جھوٹ پھیلانے میں مصروف: پرینکا گاندھی

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بدھ (8 مئی) کو رائے بریلی میں انتخابی تشہیر کے لیے منعقدہ ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بی جے پی و پی ایم مودی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی پوری مشینری راہل گاندھی سے متعلق جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے۔ نریند مودی ...