پولیس کی طرف سے’ اقلیتی بے قصوروں ‘کے خلاف دائر مقدمات واپس لینے کا منصوبہ۔بی جے پی نے مچایا سرکار مخالف طوفان
بنگلورو 27؍جنوری (ایس او نیوز)مبینہ طورپرریاستی پولیس کی طرف سے ایک نئی تجویزپر غور کیا جاررہا ہے جس کے تحت گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اقلیتی طبقے کے بے قصوروں پر دائر کیے گئے فرقہ وارانہ فساد اور دیگر جرائم کے مقدمات واپس لیے جائیں گے ۔مگر یہ تجویزبی جے پی کے لئے الیکشن میں سرکارکے خلاف استعمال کرنے کا ایک تازہ حربہ بن کر سامنے آئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (جنرل) شیوپرکاش دیوراج نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے بنگلورو سٹی کو چھوڑ کر بیلگاوی اورمنگلورو پولیس کمشنریٹ کے علاوہ دیگر اضلاع کے سپرنٹنڈنٹس آف پولیس کو مورخہ 25جنوری کوسرکیولر بھیجاہے، جس پر ’موسٹ ارجنٹ‘ لکھا ہوا ہے ۔ اس میں سن2013سے 2017 تک اقلیتی بے گناہوں پر دائر کیے گئے مقدمات واپس لینے کے بارے میں ان کی رائے طلب کی گئی ہے۔معتبر ذرائع کے مطابق اس ضمن میں پہلا سرکیولر 22 دسمبر 2017کو بھیجا گیاتھا۔ پھر بطور یاددہانی 2اور 19جنوری 2018کو بھی دو سرکیولرز بھیجے گئے ہیں۔
بی جے پی کی مخالفت:اس خبر کے عام ہوتے ہی بی جے پی کے خیمے میں کانگریسی سرکار کے خلاف طوفان مچ گیاہے۔ رکن پارلیمان شوبھا کرندلاجے نے کہا:’’کیا یہ مسلمانوں کی خوشامدی نہیں ہے۔ سدارامیا حکومت سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کروانا چاہتی ہے تاکہ ووٹ بٹورے جاسکیں۔کوئی بھی اسے برداشت نہیں کرے گا۔ ہم اس کے خلاف لڑیں گے۔اس سے پہلے اس حکومت نے 150سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مقدمات واپس لیے تھے۔ وہ سب جیل سے باہر آنے کے بعد اب ہندوؤں کو قتل کرنے میں لگ گئے ہیں۔‘‘جبکہ لیجسلیٹیو کاونسل میں اپوزیشن لیڈر ایشورپّا نے اسے کانگریسی حکومت کی طرف سے کھیلی جارہی ’ڈبل گیم پولی ٹکس‘قراردیا۔
ضلع شمالی کینرا میں بی جے پی کے ضلعی ترجمان راجیش نائک نے کہاکہ: ’’ مراسلے میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ اقلتی طبقے کے افرا د پر داخل کیے گئے مقدمات ہی واپس لیے جائیں گے۔ اس میں حالیہ دنوں میں ضلع میں ہوئے (دسمبرکے ) فرقہ وارانہ فسادات بھی شامل ہیں۔اس سے اکثریتی طبقے میں اپنے غیر محفوظ ہونے کا اور زیادہ تاثر پیدا ہوگا جوکہ پہلے ہی سے پولیس کے قہرکا شکار ہے۔کسی ایک طبقے کی طرفداری کرنا حکومت کا انتہائی غلط اقدام ہے اس لئے ہر طریقے سے اس کی مخالفت کی جائے گی۔‘‘
حکومت کا موقف:دوسری طرف وزیراعلیٰ سدارامیا کا کہنا ہے کہ صرف اقلیتی بے گناہوں کے مقدمات واپس لینے کی بات نہیں ہے بلکہ’’ہم بی جے پی والوں کی طرح سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر صرف ایک طبقے کو خوش کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم تمام بے قصوروں پر چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ہوں، دائر کیے گئے مقدمات واپس لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔۔ہم کنڑا رکھشنا ویدیکے کے کارکنان اور کسانوں کے خلاف بھی کیس واپس لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کیا وہ ہندونہیں ہیں؟ ‘‘سدارامیا نے مزید کہا کہ بی جے پی انتخابات میں شکست کے خوف سے دوچار ہے اس لئے جھوٹی باتیں پھیلارہی ہے۔
ریاستی وزیر داخلہ رام لنگا ریڈی نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے خط کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اقلیت میں عیسائی، جین، بدھسٹ، مسلمان اور دیگر طبقات شامل ہیں۔ اس میں کسی ایک کی خوشامد والی کوئی بات نہیں ہے۔ خط میں ضلع کے پولیس افسران سے مقدمات واپس لینے کے بارے میں صرف ان کی رائے پوچھی گئی ہے۔ان کا جواب آنے پر لاء ڈپارٹمنٹ میں اس پر غور ہوگااور اس کے بعدقطعی فیصلے کے لئے کابینہ کے سامنے اسے پیش کیا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں: جہاں تک سیاسی تجزیہ نگاروں کاتعلق ہے وہ کہتے ہیں کہ شاید اس قسم کے اقدامات حکومت کے لئے مہنگے پڑجائیں گے۔ کیونکہ اس بار جو اسمبلی الیکشن ہوگا وہ سب سے گندی سیاست اور سب سے زیادہ تشدد والاہوگا۔سیاسی مفاد کے لئے ہونے والے قتل کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے جوکہ بی جے پی کے پاس حکومت کے خلاف ایک بڑا ہتھیا ر ہے اور خود پارٹی کے صدر امیت شاہ اور دوسرے لیڈروں نے اسے گرما گرم موضوع بنائے رکھا ہے۔ سال 2000سے شروع ہونے والی صدی کے18برسوں کا جائزہ لیں توصرف سن 2000ہی ایک ایسا سال ہے جس میں سیاسی مقصد کے لئے قتل نہیں ہوا ہے۔
نیشنل کرایم رپورٹ بیوریو کی طرف سے جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں اس کے مطابق 17 برسوں میں 95سیاسی قتل ہوئے ہیں۔جس کو موضوع بناکر بی جے پی موجودہ سرکار کے خلاف اکثریتی طبقے میں نفرت کا ماحول پیداکرے گی اور سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔