انجمن محبان اردو علی گڑھ کی جانب سے بیکلؔ اُتساہی کی یاد میں ایک مذکرہ کا انعقاد
علی گڑھ:7/دسمبر (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)انجمن محبان اردوعلی گڑھ کی جانب سے شہرۂ آفاق شاعر پدم شری بیکلؔ اُتساہی کی یاد میں ہلال ہاؤس علی گڑھ میں ایک مذکرہ کا انعقاد کیاگیا۔جس میں شہر علی گڑھ کی مختلف ادبی انجمنوں اورتنظموں کے اراکین نے مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔پروگرام کی صدارت گلشنِ ادب علی گڑھ کے سرپرست اور معروف شاعرڈاکٹر سرور ؔ مارہروی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض عبدالحفیظ جدران نے انجام دئے۔ اس سلسلے سے انجمن اردوئے معلی کے سکریٹری سید محمد عادل فرازؔ نے کہا ’’بیکلؔ اُتساہی ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے اپنی شاعری کو دقیق نہ بنا کر عوامی لہجے اور گاؤں میں بولی جانے والی بولیوں کے الفاظ اخذ کرکے شاعرانہ گفتگو کی ان کے دوہے کبیرؔ کی یاد دلا دیتے ہیں اگر انھیں اپنے وقت کا امیرخسروؔ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا انھوں نے جو گیت کہے اس سے اُردو ادب کا دامن بہت وسیع ہوا مرحوم اپنے مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے ادب میں ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے ۔‘‘ڈاکٹر سرور ؔ مارہروی نے کہا’’مرحوم کی شاعری کو ایک گلدستہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اور اس گلدستہ میں ہندی اور اردو کی مشترکہ روایتوں کی خوشبو ہے انھوں نے گیت ،غزل اور دوہوں کے ساتھ نعتیہ کلام بھی کہا جو بہت متاثر کرتا ہے خاص طور سے ان کی نعتوں میں جو ہندوستانی رنگ پایا جاتا ہے وہ انھیں تقدیسی شاعری میں ممتاز رکھنے کے لئے کافی ہے‘‘۔ عبد الحفیظ جدران نے کہا کہ’’ بیکلؔ اُتساہی گنگا جمنی تہذیب کا نمائندہ اور ناقابلِ فراموش ستون تھے ۔مرحوم نہایت مخلص اور خوش مزاج تھے۔ان کو بزرگانِ دین سے بڑی عقیدت و محبت تھی ان کا اصل نام تومحمد شفیع خاں تھا لیکن حضرت وارث پیا سے عقیدت کی وجہ سے ابتداء میں ان کے نام کے سا تھ وارثی لاحقہ تھا اور بیکل کا لقب انھیں بیدم شاہ وارثی کے انتقال کے بعددیوہ شریف سے ملا تھاگویا کہ اس طرح مرحوم شروع میں بیکل وارثی کے نام سے جانے جاتے تھے پھر پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں ’’اُتساہی شاعر‘‘ کہا تو وہ بیکل ؔ اُتساہی ہوگئے‘‘۔محمد شاکر نے کہا کہ ’’ان کی شاعری میں مجھے جو بات سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ان کا گیت اور دوہے کہنے کا انداز ہے ان کی زبان سادہ ہے اور خاص طور سے ان کی شاعری میں پوربی الفاظ بہت دلکش محسوس ہوتے ہیں انھوں نے شاعری کی روایات کی ہمیشہ پاسداری کی‘‘ ۔محمد جاوید نے کہا کہ’’جب کوئی اچھا شاعر دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو وہ ادب میں ایسی خلا چھوڑ جاتا ہے جس کا پُر کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے سب کو انفرادیت کے ساتھ پیدا کیا ہے ہم آج بیکلؔ اُتساہی کے اس دنیاسے چلے جانے پر بہت افسردہ ہیں۔‘‘محمد حسین نے اس طرح اظہارِ خیال کیا کہ’’بیکلؔ اُتساہی جیسا شاعر اب اُردو ادب کو ملنا ممکن نہیں کیونکہ آپ نے اپنے دوہوں،گیتوں،نظموں اور غزلوں کے ذریعہ سے ہندی اور اُردو کی تہذیب کو بہت قریب لانے کی کوشش کی۔‘‘محمد رئیس نے کہا’’بیکلؔ صاحب کی شاعری خواص سے زیادہ عوام سے گفتگو کرنے کا نام ہے ان کی ہر تخلیق مشکل اور ادق الفاظ سے پاک ہے اس لئے وہ عوام میں بہت مقبول ہیں ‘‘۔نشست میں شرکت کرنے ووالوں میں حشمت رضا جدران،محمد سلمان،عفان یزدانی،شاہ عالم،عظیم،مزمل وغیرہ وغیرہ پیش پیش رہے ۔