دھارواڑ میں84ویں کنڑا ساہتیہ سمیلن کاآغاز: پہلی تا ساتویں جماعت تک تعلیم صرف کنڑا میں کرنے سمیلن کے صدر چندر شیکھر کمبار نے دیا زور
بنگلورو۔4؍جنوری(ایس او نیوز) دھارواڑ میں آج سے 84واں کنڑا ساہتیہ سمیلن شروع ہوگیا۔ اس سمیلن سے مخاطب ہوکر سمیلن کے صدر اور معروف کنڑا ادیب ڈاکٹر چندر شیکھر کمبار نے آواز دی کہ علیحدہ ریاست کی تشکیل کے مطالبات کا سلسلہ ختم کیا جائے اور متحد کرناٹک کی تعمیر وترقی کی طرف توجہ دی جائے۔ ریاستی حکومت کی طرف سے پہلی سے ساتویں جماعت تک انگلش میڈیم میں تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ڈاکٹر کمبار نے کہاکہ ریاست بھر میں کنڑا تعلیم کے نظام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
آج سے تین دنوں تک چلنے والے سمیلن سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہاکہ حکومت کی طرف سے دراصل یہ لازمی بنانے کی ضرورت ہے کہ ریاست بھر میں پہلی سے ساتویں جماعت تک کی پوری تعلیم کنڑا میڈیم میں ہو۔ اس نظام کو رائج کرنے کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے نیٹ ورک اور سہولتوں میں سدھار کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ آٹھویں جماعت کے بعد سے تعلیم کا مکمل نظام نجی اداروں کے سپرد کردیا جاناچاہئے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو علاقائی زبان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ ریاست کی تقسیم کی وکالت کرنے والوں کو سخت لتاڑتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کرناٹک کو متحد کرنے کے لئے جو قربانیاں دی گئی ہیں اسے فراموش کرکے ریاست کو تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود کرناٹک ایک انتظامی زبان کو پوری ریاست میں مکمل طور پر لاگو کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ انگریزوں کی دین کے طور پر جو زبان ملی ہے آج بھی انتظامیہ اسی میں چل رہا ہے۔ سرکاری زبان کا چلن برائے نام رکھ دیاگیا ہے۔ ان حالات میں ایک اور ریاست کی وکالت درست نہیں۔
انہوں نے کہاکہ کنڑا زبان اور تہذیب کے دائرے کو محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ علاقائی اور مادری زبان میں اگر بنیادی تعلیم کا انتظام کیا جائے تو اس کے بعد طالب علم خود بخود دیگر زبانوں کو اپنانے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے۔ اگر بنیادی سطح سے ہی اجنبی زبانوں میں تعلیم کا انتظام کیا گیا تو بچوں پر اس کا ذہنی دباؤ بہت زیادہ پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے ساتھ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ریاست کی تہذیب وتمدن اور زبان کی حفاظت کرے۔ اسے سمجھتے ہوئے حکومت کو بھی یہ یقینی بنانا چاہئے کہ حکومت کی روز مرہ کی سرگرمیاں صرف کنڑا زبان میں ہوں۔ ریاستی عوام کو کس زبان میں تعلیم دی جانی چاہئے اس کا فیصلہ بھی علاقائی مفادات کو مقدم رکھ کر لینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہاکہ سالانہ سینکڑوں کی تعداد میں کنڑا میڈیم اسکول بند کئے جارہے ہیں ، نجی اداروں کی طرف سے اتنی ہی تعداد میں انگلش میڈیم اسکول شروع کئے جارہے ہیں، انگلش میڈیم اسکولوں کا پھیلاؤ صرف شہروں تک ہی نہیں بلکہ دیہاتوں تک بھی پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے کنڑا اسکولوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں نے جہاں تعلیم کو تجارت بنالیا ہے تو حکومتوں نے اپنی مسلسل لاپروائی سے ایسے طبقے کو سرکاری اسکولوں سے دور کردیا ہے جس طبقے سے اچھی تعلیم حاصل کرنے والے بچے آتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 2014 سے 2017 کے دوران کنڑا میڈیم اسکولوں سے بچوں کی تعداد 13لاکھ کم ہوئی ہے جبکہ انگلش میڈیم اسکولوں میں بچوں کی تعداد 15لاکھ بڑھ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے فائدہ اٹھاکر انگلش میڈیم میں پڑھانے والے نجی تعلیمی ادارے جابجا پھیلتے جارہے ہیں۔ رواں سال بھی 3.5لاکھ افزود بچے انگلش میڈیم سے وابستہ ہوئے ہیں ، اس سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ ریاست میں کنڑا میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والاآنے والے دنوں میں کوئی نہیں رہے گا۔ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ اس جانب توجہ دے اور علاقائی زبان کو بچانے کی کوشش کرے ۔