فلسطین اسرائیل تنازع میں مزید شدت کا خدشہ
تل ابیب،30؍دسمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع جس کی تاریخی کئی دہائیوں پرانی ہے ، میں ایک مرتبہ پھر شدت آنے کا امکان ہے کیوں کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کئی ماہ تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں واپس آرہے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اسے اسرائیلی تاریخ کی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند حکومت قرار دے رہے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اس حکومت کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی طرح اسرائیل میں سیکوریٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئر عہدیداروں نے بھی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ ۷۳؍سالہ نیتن یاہو عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں ۲۰۲۱ء میں نفتالی بینیٹ اور یائر لاپید کی سربراہی میں بائیں بازو اور اعتدال پسند جماعتوں سمیت عرب جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، تاہم انہیں اقتدار میں واپس آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ وہ جمعرات کو اپنی نئی حکومت کی توثیق کے لئے اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش ہوئے جہاں انہیں حکومت سازی کا پروانہ مل گیا۔ وہ چھٹی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ تاہم اس دوران پارلیمنٹ کے باہرسیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا ۔پارلیمنٹ کے اندر بھی ناراض اراکین پارلیمنٹ بار بار احتجاج کرتے رہے۔ یاد رہے کہ یکم نومبر کو ہونے والے انتخابات کے بعد نیتن یاہو نے الٹرا آرتھوڈوکس اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کئے تھے جن میں جیوش پاور پارٹی، شاس پارٹی اور بیزالل سموٹرچ کی ریلیجیس زائنوازم پارٹی بھی شامل ہیں۔ یہ تمام جماعتیں ماضی میں فلسطینیوں کے تعلق سے اشتعال انگیزی کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف یہودیوں کے حقوق کی بات کرتی ہیںاوراب یہ جماعتیں مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسی اور اسرائیلی پولیس کی ذمہ داری سنبھالیں گی۔ اس کی وجہ سے یہ تنازع مزید شدید ہونے کے ساتھ ساتھ پرتشدد ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ خود نیتن یاہو نے کہا کہ وہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں بسانے کے بارے میں غور کررہے ہیں۔اس بارے میںاسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے صدر یوہانن پلیسنر نے بتایا کہ یہ حکومت نیتن یاہو کے ساتھیوں کے لئے سہانے خواب کی طرح ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک فریق کا سہانا خواب دوسرے فریق کے لئے بھیانک خواب جیسا ثابت ہو گا۔