امریکہ اور چین میں مسابقت کی دوڑ: کیا جنوب مشرقی ایشیا میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ؟
نیویارک،29دسمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی)امریکہ اور چین دنیا بھر میں اثر و رسوخ کے لیے جیسے جیسے مقابلہ کر رہے ہیں جنوب مشرقی ایشیا میں ان بڑی طاقتوں کے درمیان اقتصادی پالیسیوں، بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات اور تائیوان کی آزادی کے مسائل پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔چین کی سربراہی میں خطے میں اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ آر سی ای پی’ اس سال یکم جنوری کو نافذ ہوا تھا۔ آزاد تجارت کے اس معاہدے میں ایشیا پیسیفک کے 15 ممالک جب کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن آسیان کے تمام 10 ارکان شامل ہیں۔آر سی ای پی کو دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ کہا جاتا ہے اور آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ بھی اس کا حصہ ہیں۔گزشتہ ماہ کمبوڈیا میں آسیان کے 25 ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر چین کے وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ چین اور آسیان کے درمیان تجارتی حجم 2022 کے پہلے 10 مہینوں میں سات کھرب 98 ارب 40 کروڑ ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں بڑی طاقتوں کے مقابلے پر تحقیق کرنے والے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہنٹر مارسٹن کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آرسی ای پی معاہدے سے آسیان کے خطے کو خاطر خواہ اقتصادی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ آسیان-چین تجارت 2022 کے (ابتدائی 10 ماہ میں) ریکارڈ بلندی تک پہنچی لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس سے واضح اور دیرپا اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے ، یہ صرف رکاوٹوں کو کم اور تجارت کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں برس مئی میں آرسی ای پی معاہدے کے مقابلے میں انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک (آئی پی ای ایف) کا افتتاح کیا تھا۔
اس معاہدے میں آسٹریلیا، بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان سمیت 14 اراکین شامل ہیں۔آئی پی ای ایف کا مقصد خطے میں امریکہ کے اقتصادی تعلقات کا اعادہ کرنا اور بیجنگ کے لیے واشنگٹن کی قیادت میں ایک متبادل فراہم کرنا ہے۔بائیڈن نے ٹوکیو میں آئی پی ای ایف کی افتتاحی تقریب کے دوران کہا تھا کہ 21ویں صدی کی معیشت کا مستقبل بڑی حد تک ہندبحرالکاہل میں لکھی جائیگی۔اس سلسلے میں بائیڈن نے کہا تھا کہ ہم نئے اصول لکھ رہے ہیں۔آئی پی ای ایف کی بہت سی تفصیلات ابھی تک عام نہیں کی گئی ہیں البتہ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ہنٹر مارسٹن نے پیش گوئی کی ہے کہ بائیڈن 2023 میں اس اقتصادی اقدام کے بارے میں مزید اعلان کریں گے۔