فلسطینیوں کی نسل کشی پراسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ پہنچا عالمی عدالت ؛ سماعت شروع ؛ جمعہ کو بھی ہوگی سماعت؛ کیا فلسطینی عوام کو ملے گا انصاف ؟
دی ہیگ 11 جنوری (ایس او نیوز/ایجنسی) : اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی پر جنوبی افریقہ کے مقدمے کے پہلے دن جمعرات کو ہوئی سماعت میں وکلا نے اسرائیل کے خلاف فلسطینوں پر ہورہے ظلم اور بربریت کے دلائل پیش کئے، جس کے بعد سماعت کل جمعہ تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔
عالمی خبر رساں اداروں سے ملی اطلاع کے مطابق نیدر لینڈز کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ نے 84 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی ہے جس میں اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہلاکتیں فلسطینیوں کی زندگی ختم کرنے کے مترادف ہیں۔ ان پر مسلط کی جانے والی یہ تباہی سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس سے نومولود بچوں سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔
عالمی عدالت نے دو روزہ سماعت کا آغازآج (جمعرات) کو کیا، جس کی سنوائی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 15 ججوں کا پینل کر رہا ہے جب کہ درخواست گزار جنوبی افریقہ اور دفاع کرنے والے اسرائیل کے نمائندے بھی عدالت میں موجود تھے۔بتاتے چلیں کہ عالمی عدالت انصاف میں 15 ججس ہیں جس میں امریکا، روس، چین، فرانس اور ہندوستان کے ججس بھی شامل ہیں، جبکہ امریکا اور روس بالترتیب عدالت کے صدر اور نائب صدر ہیں۔
جنوبی افریقہ کی اس درخواست کی 13 ممالک نے حمایت کی تھی جب کہ اسے او آئی سی اور انٹرنیشنل جیوش اینٹی زوئینسٹ نیٹ ورک سمیت 5 عالمی ادارے بھی اسرائیل کے خلاف مقدمے کے حق میں رہے۔ مقدمے میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم دیا جائے تاہم اسرائیل نے نسل کشی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا ۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تین گھنٹوں کی طویل سماعت میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عائد نسل کشی کا کیس رکھا اور وکلا نے اسرائیل کے اقدامات اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے بیانات عالمی عدالت کے سامنے پیش کیے۔جنوبی افریقہ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کی اس سطح پر وہ یہ اس کا تعین نہیں کرسکتے ہیں کہ آیا اسرائیل نے نسل کشی کے حوالے سے اپنے معاہدوں پر کتنا عمل کیا اور کس قدر خلاف ورزی کی ہے اور یہ میرٹ کی سطح پر واضح کیا جاسکتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کو بتایا گیا کہ اسرائیل کا غزہ کو ’تباہ‘ کرنے کا منصوبہ ’ریاست کے اعلیٰ حکام‘ کی جانب سے آیا ہے۔
عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا میں سب سے پہلے عدیلہ ہاشم نے کیس پیش کیا اور بتایا کہ اسرائیل نے نسل کشی کے خلاف معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن بدترین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔انھوں نے غزہ میں شہریوں کے قتل کی تصاویر دکھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نسل کشی کی پہلی کارروائی غزہ میں فلسطینیوں کی بلاامتیاز قتل و غارت ہے، جہاں نومولود، بزرگ اور خواتین سمیت کسی کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ عدیلہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہر روز فلسطینی عوام کی جان، مال اور عزت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔اور اس عدالت کے حکم کے علاوہ اسرائیل کو دوسرا کوئی نہیں روک سکتا۔‘ عدیلہ ہاشم نے کہا کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی پر فضا، زمین اور سمندر سے اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں لوگوں کے گھر اور اہم تنصیبات تباہ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو ہر جگہ بے رحمانہ بم باری کا سامنا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہےکہ بہت سے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے۔ حملوں میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور معذور ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے بھوک اور بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے دوچار لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی بھی روک رکھی ہے۔ متواتر بم باری کے باعث ان لوگوں تک مدد پہنچانا ممکن نہیں رہا۔ عدیلہ ہاشم نے کہا کہ لوگوں کو ان کے گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں،ا سکولوں، مساجد، گرجا گھروں میں اور خوراک و پانی ڈھونڈنے کی کوشش میں بھی ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ انخلا کے احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہیں تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے، اگر وہ اسرائیل کی طے کردہ محفوظ راہداریوں کے ذریعے نقل مکانی کریں تو تب بھی ان کے لیے سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔
اس کے بعد ٹیمبیکا نگکوکیٹوبی نے جنوبی افریقہ کا مقدمہ پیش کیا، جنھوں نے اسرائیل کے سیاسی رہنماؤں، فوجی کمانڈروں اور سرکاری عہدوں پر براجمان افراد کے نسل کشی کے ارادوں اور اعلانات کے حوالے پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کا ’نسل کشی کا ارادہ‘ اس کے ’فوجی حملے کے طریقے کار سے واضح ہے۔‘مزید کہا کہ ’غزہ کو تباہ کرنے کا ارادہ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا ہے۔‘
وکلا کے دلائل کے بعد عدالت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا جہاں جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر جان ڈوگارڈ نے نشان دہی کی کہ نسل کشی کے خلاف عالمی کنونشن کا تعلق عالمی برادری سے ہے اور اس کا تحفظ کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔
ایک اور وکیل میکس ڈو پلیسز نے جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ماہرین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں، اداروں اور ریاستیں مجموعی طور پر سمجھتی ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطین کے عوام انتہائی مشکلات اور خطرا ت سے دوچار ہیں۔ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس کے برخلاف مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اپنا حق دفاع استعمال کر رہا ہے کیونکہ اس حملے میں ایک ہزار 139 افراد مارے گئے اور 200 سے زائد افراد گرفتار کیے گئے ۔
جنوبی افریقہ کے وکلا نے دلائل کا آغاز اس مطالبے سے کیا کہ اسرائیلی فوج فوری طور پر غزہ میں اپنی کارروائیاں روک دے اور عدالت کو بتایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل کی وحشت ناک کارروائیوں کے دوران 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ دی ہیگ میں جنوبی افریقہ کے نمائندے ووسیموزی میڈونسیلا نے کہا کہ جنوبی افریقہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے شہریوں کے خلاف 1948 سے نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے وزیر قانون رونالڈ لیمولا نے بتایا کہ اسرائیل نے حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے جواب میں سرخ لکیر عبور کردی ہے، حملوں کی آڑ میں ہونے والے نسل کشی کے اقدامات کسی صورت حق دفاع نہیں ہوسکتے۔
خیال رہے کہ بین الااقوامی عدالت برائے انصاف جنوبی افریقہ کے اسرائیل کے خلاف دائر مقدمے میں صرف اپنی رائے دے سکے گا کیونکہ یہ مقدمہ فوجداری مقدمہ نہیں ہے۔