بھٹکل 24 / فروری (ایس او نیوز) بھٹکل میں تعلقہ انتظامیہ کی خاموشی کی وجہ سے تعلقہ کے گورٹے، بیلکے، جالی، مُنڈلی نستار، بئیلور جیسے علاقوں میں ساحل سے ریت جیسی سمندری دولت لوٹنے کا کام 'ریت مافیا' کی طرف سے بلا روک ٹوک جاری ہے اور مقامی عوام پریشانی اور بے بسی و لاچاری سے یہ سب دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔
یہ بات آسانی سے نوٹ کی جا سکتی ہے کہ بعض علاقوں میں آدھی رات کو دو اور تین بجے کے وقت ساحلوں کی ریت کو لاریوں میں بھرا جاتا ہے اور بے خوف ہو کر دن دہاڑے ساحلوں سے ریت اٹھانے کا کام جاری رہتا ہے ۔ کہیں راستوں پر نگرانی کرنے کے لئے کچھ افراد تعینات ہوتے ہیں اور کبھی لاریوں کے آگے پیچھے کاروں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔
اس غیر قانونی اور غیر سائنٹفک طریقے پر ریت نکالنے اور چرانے کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں کٹا و سے بچنے کے لئے جو پتھروں کی دیواریں بنائی گئی ہیں وہ اپنے آپ کھسکنے لگتی ہیں اور سمندر کی موجیں مزید ساحلی کناروں کو کاٹنے لگتی ہیں ۔ اس سے وہاں بسنے والے عام لوگوں اور مچھیروں کے گھر ، مکانات ، زندگی سب کچھ خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ اس کے خلاف مقامی عوام ہر کسی سے شکایت کر رہے ہیں ، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گرام پنچایت، ولیج اکاونٹنٹ، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر سب کے سب اس 'ریت مافیا' کی لوٹ پر پوری طرح خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ اگر ہم اس معاملے میں افسران سے زیادہ شکایت کریں تو کسی نہ کسی معاملے پر ہم لوگوں کو ہی نشانہ بنا کر ہراساں کیا جاتا ہے ۔ بعض نچلی سطح کے افسران تو ہمیں صلاح دیتے ہیں کہ یہ سب ہمارے ہی لوگ ہیں، اس لئے آپ لوگ بھی اس کو نظر انداز کریں ۔
بیلکے گرام پنچایت کے رکن وامن موگیر نے بتایا کہ گورٹے علاقے سے مسلسل ریت کی لوٹ ہو رہی ہے ۔ عوامی مفاد اور تحفظ کے مقصد سے اس پر روک لگانے کے لئے گرام پنچایت سے لے کر تحصیلدار تک کو درخواستیں دی گئیں ۔ لیکن کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ دو دن قبل رات کے وقت گورٹے میں بعض مقامی لوگوں نے ریت بھری ہوئی لاری کو راستے میں روک لیا ۔ مگر لاری ڈرائیور اور ادھر اُدھر نگرانی کرنے پر مامور اس کے ساتھی مقامی لوگوں پر ہی چڑھ دوڑے ۔ دھمکیاں دیں ۔ موبائل چھیننے اور اس میں موجود کلپ کو ضائع کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ بعض منتخب عوامی نمائندوں کی طرف سے ریت مافیا کو پوری طرح کمک مل رہی ہے ۔ ایسے میں عوام کریں تو کیا کریں والا معاملہ بن گیا ہے !