منگلورو میں طلباء کے والدین کو دھمکی والے فون کالس - پولیس کمشنر نے کہا : پولینڈ اور پاکستان کے کوڈ کا ہوا ہے استعمال
منگلورو، 13/ جون (ایس او نیوز) منگلورو شہر کے علاوہ سورتکل میں 11 اور 12 جون کو کالجوں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین کو ان کے بچوں کے اغوا یا سنگین جرائم میں گرفتاری کی بات کہتے ہوئے تاوان کی رقم طلب کرنے کے جو دھمکی والے فون کالس آئے تھے اس کے سلسلے میں پولیس کمشنر نے انوپم اگروال نے بتایا کہ فریب کاروں نے فون کرنے کے لئے پولینڈ اور پاکستان کے انٹرنیشنل سبسکرائبر ڈائلنگ (آئی ایس ڈی) کوڈ کا استعمال کیا تھا ۔
خیال رہے کہ منگل اور بدھ کے دن منگلورو اور سورتکل کے کالجوں میں پی یو سی میں زیر تعلیم بعض طلباء کے والدین کو نامعلوم دھوکے بازوں نے پولیس افسران اور سی بی آئی سے متعلق افسران کے نام سے فون کرکے بتایا کہ ان کے بچوں کو سنگین جرم میں گرفتار کیا گیا ہے یا پھر اسے اغوا کر لیا گیا اور قانونی شکنجے سے بچانے یا پھر اغوا کاروں سے آزاد کروانے کے لئے انہیں پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کرنا پڑے گا ۔
جن لوگوں کو فون کالس موصول ہوئی تھی ان کا کہنا ہے کہ 923354533015 - 48699532787نمبروں سے کالس آئے تھے اور فون کرنے والے ان سے ہندی میں بات چیت کر رہے تھے ۔ ایک طالب کے والدین نے بتایا کہ ان جس نمبر سے کال آئی تھی اسے 'ٹرو کالر' پر سی بی آئی سے متعلق دکھایا جا رہا تھا اور پولیس افسروں کے یونیفارم میں تصاویر دکھائی دے رہی تھیں ۔
اس طرح دھمکی اور تاوان طلب کرنے والے فون کالس ملنے پر خوف و دہشت کے مارے والدین اپنے بچوں کی خیریت جاننے کے لئے متعلقہ کالجوں کی طرف دوڑ پڑے اور وہاں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کے بچے صحیح سلامت کالجوں میں موجود ہیں اور جو فون کالس انہیں موصول ہوئی تھیں وہ دھوکہ بازوں کے ذریعے رقم اینٹھنے کی نئی سازش تھی ۔
دھوکے بازوں کا شکار ہونے والے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں کال کرنے والے جعلسازوں کے پاس طالب علم سے متعلقہ وہ تمام تفصیلات موجود تھیں جو ان کے تعلیمی اداروں کو دئے گئے ریکارڈس میں موجود ہیں ۔ اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کالجوں کے ریکارڈس سے تفصیلات کسی طریقے سے حاصل کی گئی ہیں یا پھر طلباء کا ڈاٹا لیک ہو گیا ہے ۔
سائبر سیکیوریٹی کے ماہر ڈاکٹر اننت پربھو جی نے کہا : " ممکن ہے کہ جعلسازوں نے ڈاٹا بیس ویب سائٹس سے والدین کی تفصیلات حاصل کی ہوں ۔ ہمارے ملک میں بہت سارے سوشیل میڈیا سائٹس غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں ۔ بہت سارے ادارے ان جعلساز کمپنیوں کے توسط سے موبائل نمبرس حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایکزامینشن بورڈ سے بھی جعلسازوں نے ڈاٹا حاصل کیا ہو ۔ حالانکہ ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کسی کی ذاتی کیفیات اور تفصیلات فروخت کرنا جرم ہے ، لیکن ہمارے ملک میں صحیح ڈھنگ سے اس قانون کا اطلاق نہیں ہو رہا ہے ۔"
سٹی پولیس کمشنر نے بتایا کہ اس طرح کے جھوٹے دھمکی آمیز یا تاوان طلب کرنے والے فون کالس آنے پر کسی کو بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ اس معاملے کی اطلاع فوری طور پر قریبی پولیس اسٹیشن کو یا پھر براہ راست 1930 نمبر پر دینی چاہیے ۔