منگلورو: نیشنل ایجوکیشن پالیسی 'ہندوتوا راشٹرا' بنانے کا ٹوُل کِٹ ہے؛ ماہر تعلیم ڈاکٹر نرنجنارادھیا
منگلورو،6 / جنوری (ایس او نیوز) کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی آل انڈیا یوتھ فیڈریشن (اے آئی وائی ایف) جنوبی کینرا و اڈپی، سمدرشی ویدیکے منگلورو، کرناٹکا تھیولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ منگلورو کے اشتراک سے 'نیشنل ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) اور اسکولی تعلیم' کے عنوان پر شہر میں منعقدہ سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ماہر تعلیم ڈاکٹر نرنجنارادھیا نے کہا کہ یہ تعلیمی پالیسی ملک کو ہندوتوا راشٹرا بنانے کے لئے ضروری ٹوُل کٹ (اوزار کا بیگ) ہے۔
ڈاکٹر نرنجنارادھیا نے کہا کہ ملک کو اصل میں دستوری ضروریات کے مطابق تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے ، لیکن 2020 میں جو قومی تعلیمی پالیسی وضع کی گئی ہے وہ دستوری تقاضوں کے منافی ہے ۔ اس کا خفیہ ایجنڈہ ہے ۔ عوام کی رائے جانے بغیر ہی تیاری کی گئی این ای پی کو ہندوتوا راشٹرا بنانے کے مقصد سے لایا گیا ہے ۔ اس کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا ہے ۔ اس میں اہم تعلیمی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ۔ 1986 میں بنائی گئی تعلیمی پالیسی اگر دور اندیشی پر مبنی ہے تو 2020 میں بنائی پالیسی دستور مخالف ہے ۔ اس کو تشکیل دینے والی کمیٹی میں ماہرین تعلیم ہی شامل نہیں تھے ۔ اس پر عوامی سطح پر بحث کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اسکول کے کمروں کو زعفرانی رنگ لیپنا، حجاب کے مسئلہ پیدا کرنا ، یہ سب فسطائی کلچر اور ہٹلر کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
'قومی تعلیمی پالیسی اور بھارتی زبانیں' کے موضوع پر بولتے ہوئے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر پروشوتم بلیملے نے کہا کہ 2020 کی نیشنل ایجوکیشن پالیسی کرناٹکا کے سوا ملک کی کسی اور ریاست میں لاگو نہیں کی گئی ہے ۔ اس پالیسی میں علاقائی زبان میں تعلیم پانے کا موقع تو موجود ہے مگر اس کا فائدہ اٹھانے کی گنجائش صرف انتہائی کم تعداد میں بولی جانے والی سنسکرت زبان کے لئے رکھا گیا ہے ۔ سنسکرت زبان کی ترقی کے لئے کروڑوں روپے فنڈ مختص کیا گیا ہے ۔ یہ آر ایس ایس کو فائدہ پہنچانے کی چال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کرناٹکا میں کنڑا کے علاوہ 72 زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں ۔ انہیں فروغ دینے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اردو، بیاری زبانوں کو ترقی دینے میں بھی حکومت کی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ تُولو جیسی معروف زبان اور اس کے کلچر اور ادب کو دیکھتے ہوئے تُولو یونیورسٹی قائم کی جانی چاہیے تھی ۔ لیکن ہمارے ریاستی لیڈر مرکزی لیڈروں کو خوش کرنے کے لئے ہندی کی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں تُولو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے پر غور کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، مگر یہ صرف انتخابی حربہ ہے۔
'قومی تعلیمی پالیسی اور میڈیکل تعلیم' کے عنوان پر بولتے ہوئے مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر بی شرینواس ککیلّائی نے کہا کہ کووڈ وباء کے دوران جب عوام خوف و ہراس میں جی رہے تھے ، اس وقت اس پالسی کو لاگو کیا گیا ۔ میں شروع میں ہی کہا تھا کہ طبی تعلیم پر اس پالیسی کے برے اثرات پڑیں گے ۔ اس پالیسی کی پرزور مخالفت ہونی چاہیے تھی مگر اُس وقت انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن بھی منھ بند کرکے بیٹھ گئی ۔ کچھ دنوں بعد 'مِکسو پیتھی' کے خلاف ایک بیان دے کر چپ ہوگئی ۔ آر ایس ایس کے کارکنان سے بھرے 'نیشنل میڈیکل کمیشن' کے ذریعہ پوری میڈیکل تعلیم اور نظام پر قبضہ جمانے کی کوشش ہو رہی ہے۔