منگلورو: مورل پالیسنگ کے معاملے میں ساحلی پٹی کے سماجی جہدکار پر امید؛ موجودہ کانگریس حکومت موثر کارروائی کرے گی
منگلورو: 25؍ مئی (ایس اؤ نیوز ) ریاست کے وزیرا علیٰ سدرامیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کی کانگریس حکومت کی طرف سے مارل پولسنگ کو ختم کئے جانے والے بیان کا ساحلی پٹی کے سماجی کارکنوں نے استقبال کرتےہوئے امید ظاہر کی ہے کہ موجودہ کانگریس کی حکومت سال 2013اور2018سے بھی زیادہ کارگر کارروائی کرے گی۔
ریاستی اعلیٰ پولس افسران کے ساتھ منعقدہ ایک میٹنگ میں وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ نے کہاتھا کہ ہم ریاست میں مارل پولسنگ کو برداشت نہیں کریں گے چاہے وہ کسی بھی مذہب کی طرف سے ہو۔ میٹنگ میں وزیر اعلیٰ سدرامیا نے کہاتھا کہ ہم ریاست سے مارل پولسنگ کو ختم کردیں گے۔ دونوں نے لیڈران واضح طورپر کہاتھا کہ ہماری حکومت سوشیل میڈیا کے ذریعے امن میں خلل ڈالنے والے فرقہ پرست عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
ساحلی پٹی کے مشہور و معروف کالم نگار اور سماجی کارکن سریش بھٹ باکرابائیل نے کانگریس لیڈران کے بیانات کے متعلق کہاکہ دونوں کے بیانات نے امید جتائی ہے کہ اب کی کانگریس حکومت مارل پولسنگ کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔اب آئندہ دنوں میں حکومت فرقہ پرست عناصر کے ساتھ کیسے کارروائی کرتی ہے اسی سے پتہ چلے گا کہ وہ ان معاملات کو کتنا سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اس موقع پرا نہوں نے دکشن کنڑا اور اُڈپی اضلاع میں پیش آنے والے مارل پولسنگ ، گئو رکشا اور فرقہ وارانہ فسادات کو تاریخی ترتیب سے بتایا ۔سریش بھٹ نے بتایا کہ سال 2013اور2018کے درمیان کانگریس حکومت نے مارل پولسنگ کو نظر انداز کیا، جس کا نتیجہ مارل پولسنگ میں اضافہ اور فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ٹیموکرٹیک یوتھ فیڈریشن کے ریاستی صدر اور سماجی جہدکار منیر کاٹی پالیا (جو اکثر مارل پولسنگ کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں )نے کہاکہ صرف پولس کے ذریعے مارل پولسنگ کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کانگریس فرقہ پرست قوتو ں اور کے خلاف نظریاتی سطح پر اس کے نسداد اور سیاسی سطح پر موثر جدوجہد کی شروعات کرے۔ کیونکہ ان سب کے پیچھے یہی قوتیں کارفرما ہیں۔ کانگریس کی یہ جدوجہد اپنے زمینی کارکنان کی شمولیت کے ساتھ ہو۔ کاٹی پالیا نےکہاکہ صرف ان دونوں لیڈران کے بیانات سے کچھ ہونےوالا نہیں ہے، جیسے ماضی میں ہواہے۔ فرقہ پرست قوتیں اپنی مارل پولسنگ جاری رکھتےہوئے ایک مخصوص طبقہ پر اثر اندا ز ہوتے رہیں گے کہ وہی ہندوتوا کے محافظ ہیں۔ کانگریس کے لئے خاص کر سیاسی جدوجہد بہت ضروری ہے کیونکہ دکشن کنڑا اور اُڈپی اضلا ع کے 13 میں سے 11 ارکان اسمبلی بی جےپی سے منتخب ہوئے ہیں اوربی جے پی متعلقہ علاقے میں آئندہ آنے والے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کے پیش نظر یقینی طورپر فرقہ وارانہ ماحو ل سے فائد ہ اٹھائے گی۔ اسی دوران علاقے کے ایک سنئیر پولس آفیسر نے بتایا کہ جو کوئی قانون کو ہاتھ میں لے گا اور فرقہ وارانہ بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا پولس اس کے ساتھ سختی کے ساتھ برتاؤ کرے گی۔
خیال رہے کہ سال رواں کے ان 5مہینوں میں دکشن کنڑا ضلع میں اب تک تین مارل پولسنگ کے معاملات پیش آچکےہیں۔ 5جنوری کو سبرامنیا کے ایس آرٹی سی بس اسٹانڈ پر 12افراد پر مشتمل ایک گروہ( جس میں ایک پی یو سکینڈ کا متعلم بھی شامل تھا )ایک 20سالہ مسلم کو 17سالہ ہندولڑکی سے بات کرنے کے معاملے کو لے کر حملہ کیا تھا۔ 12جنوری کو ایک سرکاری بس میں 19سالہ بنٹوال کے ایک مسلم لڑکے کو اپنے قریب بیٹھی ایک ہندو لڑکی کو چاکلیٹ پیش کئےجانے پر 6افراد نے مارپیٹ کی تھی۔ اسی طرح 2مئی کو کبکا میں مسلم طالب علم کی مارپیٹ کی گئی کیونکہ وہ اپنی کلاس میٹ ہندولڑکی کے ساتھ جوس پی رہاتھا۔