کرناٹک ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ ؛ رضامندی سے کی گئی کم عمری کی شادی کا مقدمہ کردیا خارج
بینگلور 27 فروری (ایس او نیوز) کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے 21 سالہ نوجوان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ رد کر دیا اور کہا کہ نابالغہ کے ساتھ رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات کا قائم کرنا جرم نہیں ہے۔
’بار اینڈ بنچ‘ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ہیمنت چندن گودر نے ’پروٹیکشن آف چیلڈرن فروم سیکسول افینس‘ (پوکسو) قانون پر اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوکسو قانون کا مقصد نابالغوں کے درمیان رضامندی سے جنسی تعلقات کو جرم بنانا نہیں ہے، بلکہ انہیں جنسی استحصال سے بچانا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہائی کورٹ نے اُس21 سالہ نوجوان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ رد کر دیا جس کے خلاف ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرنے پر پوکسو ایکٹ اور چائلڈ میرج پروہیبیشن ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے بتایا کہ ملزم اور نابالغ لڑکی سماج کے اس طبقے سے آتے ہیں جو معاشی اور سماجی طور پر پچھڑا ہوا ہے۔ ان کے پاس اس تعلق سے زیادہ معلومات کا فقدان ہے اور انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ اگر وہ شادی کرتے ہیں تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ پاکسو قانون کا مقصد نابالغوں کے درمیان آپسی رضامندی سے جنسی تعلقات کو جرم بنانا نہیں بلکہ انہیں جنسی استحصال سے بچانا ہے۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ رضامندی سے جنسی تعلقات کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جس نوجوان کے خلاف پوکسو ایکٹ و دیگر قوانین کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا تھا، اس نے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی جبکہ اسے معلوم تھا کہ لڑکی نابالغ ہے۔ اس کے بعد بنگلورو پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا اور ملزم نے اس مقدمے کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پولیس کے ذریعے درج مقدمات کو رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس لڑکے کا کہنا تھا کہ وہ لڑکی کے ساتھ ’ریلیشن شپ‘ میں تھا اور اس کی رضامندی سے ہی اس کے ساتھ تعلقات بنائے۔
اس کے بعد نابالغ لڑکی اور اس کے والدین نے ہائی کورٹ میں ایک مشترکہ حلف نامہ داخل کیا جس میں کہا کہ یہ شادی غلطی سے ہو گئی ہے اور وہ اس سے متعلق قوانین سے واقف نہیں ہیں۔ عدالت نے ملزم نوجوان کو فوری رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کے خلاف درج مقدمات کو منسوخ کر دیا۔ اس ضمن میں عدالت نے اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا کہ نابالغ لڑکی کے یہاں بچہ پیدا ہونے کی صورت میں اس کی دیکھ بھال کے لیے باپ کا ہونا ضروری ہے۔