ایران میں پھر حجاب تنازعہ، پولیس کی پٹائی سے 16 سالہ لڑکی کوما میں!
تہران ، 5/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی ) ایران میں ایک بار پھر حجاب تنازعہ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تہران شہر میں میٹرو پر ایک بچی کے ساتھ پولیس کے ذریعہ پٹائی کیے جانے کا معاملہ سامنے آ رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق میٹرو میں مبینہ طور پر حملہ کے بعد 16 سالہ ایک لڑکی کوما میں چلی گئی ہے۔ اس کا اسپتال میں سخت سیکورٹی کے درمیان علاج جاری ہے اور میڈیا کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ مہسا امینی کی موت کے بعد جس طرح ایران میں مظاہرے شروع ہوئے تھے، ایک بار پھر ویسی حالت بن سکتی ہے۔
ایک گروپ کے حوالے سے میڈیا میں خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس نے حجاب نہیں پہننے پر 16 سالہ بچی کی پٹائی کر دی۔ کرد حامی گروپ ہینگو کا کہنا ہے کہ اس بچی کا نام ارمیتا گراوانڈ ہے، جس کے ساتھ تہرا میٹرو پر خاتون پولیس افسران نے پٹائی کی تھی۔ لڑکی پر حجاب نہیں پہننے کا الزام تھا۔ نیوز ویب سائٹ ایران وائر نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس افسران کے ذریعہ دھکا دیے جانے کے بعد ارمیتا کے سر میں چوٹ لگی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ حجاب کو لے کر ایران گزشتہ کچھ وقت سے تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔ مہسا امینی کی موت کے بعد پورے ایران میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور بڑی مشقتوں کے بعد حالات قابو میں آئے، لیکن تازہ معاملہ کے بعد پھر سے تشدد بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔ حالانکہ ایرانی افسران نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہڑکی کی اس حالت کے لیے پولیس ذمہ دار ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ ارمیتا کا جس اسپتال میں علاج چل رہا ہے، وہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولیس کو اندیشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔ ایک مقامی روزنامہ کی صحافی مریم لوٹفی نے واقہع کے بعد اسپتال کا دورہ کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انھیں فوراً حراست میں لے لیا گیا۔ بعد میں انھیں رِہا کر دیا گیا۔
ایران: اخلاقی پولیس کے مبینہ 'تشدد' سے طالبہ کوما میں
تہران ، 5/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی ) چند روز قبل ایک سولہ سالہ ایرانی طالبہ زیر زمین ٹرین میں بے ہوش ہوگئی تھی، انہیں بعد میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ کوما میں چلی گئیں۔
کرد حقوق انسانی گروپ ہینگاو نے منگل کے روز کہا کہ ارمیتا گاروند کو حجاب پہننے سے انکار کرنے پر ایران کی اخلاقی پولیس کی خاتون افسران نے ان پر تشدد کیا۔ حکام نے تاہم دعویٰ کیا کہ وہ کم بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔
ہینگاو نے بتایا کہ گاروند پر اتوار کے روز تہران کے شہداء انڈر گراونڈ ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے انہیں متعدد زخم آئے۔ گروپ نے بتایا کہ تہران کے فجر ہسپتال میں انتہائی سخت سکیورٹی میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ "متاثر ہ لڑکی سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، حتی کہ اس کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔" ہینگاونے بتایا کہ اس لڑکی کا تعلق مغربی ایران کے کرد آبادی والے شہر کرمان شاہ سے ہے لیکن وہ تہران میں رہتی ہے۔ ہینگاو نے مزید بتایا کہ ایک مقامی خاتون صحافی مریم لطفی، جنہوں نے ہسپتال میں متاثرہ لڑکی سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی، کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
تہران کے زیرزمین ٹرینوں کے نظام کے مینیجنگ ڈائریکٹر مسعود درستی نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا سے بات کرتے ہوئے گاروند اور مسافروں یا میٹرو کے حکام کے درمیان کسی طرح کی زبانی یا جسمانی تصادم کی تردید کی ہے۔ انہو ں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا حوالہ دیتے ہوئے ان دعووں کی تردید کی کہ طالبہ پر حملہ کیا گیا تھا۔
یہ واقعہ بائیس سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مو ت کے واقعے کے تقریباً ایک سال بعد پیش آیا ہے۔ مہسا امینی بھی کرد تھیں۔ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیر یپمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جسے سن 1979 میں ایران میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں اسلامی رہنماوں کی حکمرانی کے لیے سب سے بڑے چیلنج کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔