دکشن کنڑا اور اڈپی میں نہیں ختم ہو رہی ہیں 'غیر اخلاقی پولیس گیری'- صحافی اور پولیس والے بھی آ رہے ہیں زد میں - 6 مہینوں میں درج ہوئے 10 معاملے
منگلورو یکم / دسمبر (ایس او نیوز) دکشن کنڑا اور اڈپی ضلع میں غیر اخلاقی پولیس گری کا بھوت قابو میں آتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ امسال جون سے دسمبر تک یعنی گزشتہ 6 مہینوں میں غیر اخلاقی پولیس گری کے 10 معاملے درج ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض معاملوں کی زد میں تو صحافی اور پولیس والے بھی آئے ہیں۔
معاملہ نمبر 1 : چار دن قبل یعنی 27 نومبر کو منگلورو شہر کی ایک دکان میں ملازمت کرنے والے الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے مرد اور خاتون کو میلاگریس چرچ کے پاس بائک سے گزرتے وقت پیچھا کرکے سڑک پر روکا گیا اور ہندو مسلم مرد و خاتون کو ہراساں کیا گیا۔ اس ضمن میں پانڈیشور پولیس اسٹیشن میں کیس درج کیا گیا ہے۔
معاملہ نمبر 2 : کاپو پولیس اسٹیشن کے حدود میں دو الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو آگمبے آبشار سے واپس لوٹتے وقت مقامی سنگھی نوجوانوں نے روکا اور ان کے ساتھ غنڈہ گردی کی۔ اس کی ویڈیوبھی کی گئی ۔ یہ واقعہ 21 اگست کو پیش آیا تھا ۔ پھر جب ویڈیو کلپ سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی تو 21 ستمبرکو کاپو پولیس اسٹیشن میں کیس درج کیا گیا۔
معاملہ نمبر 3 : موڈبیدری بس اسٹینڈ کے پاس 21 اگست کو دو الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہم جماعت طالب علم بات چیت کر رہے تھے تو اس وقت سنگھی گروپ نے نہ صرف دونوں کو ہراساں کیا بلکہ 19 سالہ لڑکے کو بری طرح مار پیٹ کر زخمی کر دیا ۔ اس معاملے میں تین ملزمین کو گرفتار بھی کیا گیا۔
معاملہ نمبر 4 : سولیا کے توڈیکان نامی علاقے میں اگست کے مہینے میں ہی ایک واردات ہوئی جس میں ایک ایسے شخص پر پانچ لوگوں نے حملہ کیا جو دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی دوست کے لئے لاڈجنگ کا کمرہ حاصل کرنے میں تعاون کر رہا تھا۔ اس معاملے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔
معاملہ نمبر 5 : اوجیرے سے دھرمستھلا بس اسٹینڈ تک 2 اگست کے دن ایک غیر مسلم طالبہ کو اپنے آٹو میں لے جانے والے مسلم رکشہ ڈرائیور پر چار افراد نے حملہ کیا۔ اس معاملے میں پولیس نے کیس درج کیا۔
معاملہ نمبر 6 : کارکلا میں 29 جولائی کو ایک واردات پیش آئی جس میں منگلورو سے تعلق رکھنے والے مسلم و غیرمسلم افراد پر مشتمل میڈیکل پروفیشنلس کے گروپ پر غیر اخلاقی پولیس گری کرنے والوں کی طرف سے ہراسانی کا معاملہ پیش آیا ۔ اس کیس میں پانچ ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
معاملہ نمبر 7 : بنٹوال میں27 جولائی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرکے رہائشی کوارٹر کی طرف جانے والے پولیس کانسٹیبل اوراس کی بیوی کو روک کر دونوں کو الگ الگ مذاہب کے افراد مانتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔
معاملہ نمبر 8 : کاور کے ایک ہوٹل میں 26 جولائی کو کھانا کھانے کے بعد باہر نکل کر اپنی دوست کے ساتھ بات چیت میں مصروف ایک صحافی کو روک کر ہراساں کیا گیا۔
معاملہ نمبر 9 : مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم جماعت طالب علموں کے ساتھ 21 جولائی کو پنمبور ساحل پر تفریح کرنے والی لڑکی کو ہراساں کرنے کا معاملہ پیش آیا جس کے بعد دو ملزمین کو گرفتار کیا گیا۔
معاملہ نمبر 10 : سومیشور ساحل پر یکم جون کو تین لڑکیوں کے ساتھ تفریح کے لئے آئے ہوئے نوجوان پر دس افراد کے ایک گروپ نے حملہ کیا۔
یہ اعداد و شمار ان وارداتوں کے ہیں جس کی شکایت پولیس کے پاس کی گئی یا معاملہ درج کیا گیا ہے ۔ ایسے بھی بہت سارے معاملے ہوتے رہتے ہیں جس کے بارے میں پولیس کے پاس شکایت درج نہیں کی جاتی ۔
حالانکہ اس طرح کی غیر اخلاقی پولیس گری پر روک لگانے کے لئے ریاستی کانگریسی حکومت نے سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ منگلورو پولیس کمشنریٹ حدود میں اینٹی کمیونل ونگ بھی شروع کیا گیا ہے، مگر فرقہ وارانہ منافرت اورغیراخلاقی پولیس گری پر ابھی تک پوری طرح روک لگانے میں کامیابی نہیں ملی ہے۔
اس صورتحال پر منگلورو کے ایک سینئر صحافی رمیش پیرل نے کہا : اس طرح کی غنڈہ گردی ضلع کی ترقی کے لئے زہر قاتل ہے۔ پولیس کو ایسے معاملات میں کٹھن کارروائی کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں پولیس اہلکاروں کے اندر بھی بیداری لانی چاہیے۔ ورنہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ متاثرہ افراد اگرشکایت درج کروانے جاتے ہیں تو پولیس اسٹیشن میں ہی معاملہ درج کرنے میں پس و پیش کیا جاتا ہے۔
سابق ریاستی وزیر رماناتھ رائے کا کہنا ہے کہ ایک حد تک ایسی وارداتوں پر روک لگی ہے۔ ہماری حکومت نے دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی اس تعلق سے سخت پالیسی اپنائی ہے اور اس کے مطابق اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ آنے والی دنوں میں ایسی طاقتوں پر قابو پانے کے لئے ہی سیکیولر پارٹیوں کا اتحاد ضروری ہے ۔
دوسری طرف شہر کی ایک سوشیل ورکر ودیا دینکر کا ماننا ہے کہ ایسی غنڈہ گردی پر پوری طرح روک لگنی چاہیے۔ الیکشن قریب آتے ہی ایسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ، جو لوگوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔
اس لئے حال ہی میں جو اینٹی کمیونل ونگ قائم کی گئی ہے اس کی طرف سے کیا کچھ کارروائیاں ہو رہی ہیں ، ایسی سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں اور افراد کے ساتھ پولیس نے کیا طریقہ کار اپنایا ہے انہیں کس طرح کی وارننگ، معلومات دی ہے ، ان سب کے بارے میں ایک وہائٹ پیپر جاری کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ضلع انتظامیہ کی طرف سے اجلاس منعقد کرکے عوام کو باخبر کرنا بھی ضروری ہے۔