کاروار کے سمندر میں لگا ہوا 'رڈار' بھی چوروں کے ہاتھ سے بچ نہ سکا !
کاروار 25/ فروری (ایس او نیوز) زمین پر سے قیمتی مشینیں چرانے والوں نے اب سمندر میں اپنے ہاتھ کی صفائی دکھانا شروع کیا ہے جس کی تازہ ترین مثال ماحولیاتی تبدیلیوں کے سگنل فراہم کرنے کے لئے کاروار کے علاقے میں بحیرہ عرب میں لگائے گئے 'رڈار' کی چوری ہے ۔
کنڑا میڈیا میں چھپی رپورٹ کے مطابق گردابی طوفان، ہواوں کی رفتار، برسات کے امکانات وغیرہ کے سلسلے میں سگنل فراہم کرتے ہوئے پیشین گوئی کرنے والا یہ رڈار سسٹم ، انڈین نیشنل میری ٹائم انفارمشین سینٹر کی جانب سے ماحولیاتی مطالعہ کے مقصد سے کاروار میں موجود کرناٹکا یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف مرین بایولوجی کو فراہم کیا گیا تھا ۔نیدرلینڈ کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے بنایا گیا یہ رڈار کروڑوں روپے کی لاگت والا تھا اور اسے کاروار بحری اڈے کے علاقے میں بحیرہ عرب میں لگایا گیا تھا ۔
رڈار کی دیکھ بھال کرنے کے ذمہ دار جگن ناتھ راتھوڑ کا کہنا ہے کہ اگر تیز ہواوں کی وجہ سے اس رڈار سے لگی ہوئی ڈوری کٹ جانے پر بھی اسے سمندر میں بہتے ہوئے منگلورو کی طرف جانا چاہیے تھا ۔ لیکن اب جی پی ایس میں اس کا لوکیشن مہاراشٹرا کے رتناگیری سے باہر والے علاقے میں دکھایا جا رہا ہے ۔ اس وجہ سے شبہ ہو رہا ہے کہ کسی نے اس کو چرا لیا ہے ۔ اس تعلق سے نیوی، کوسٹ گارڈ اور مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ریلائنس فاونڈیشن کی طرف سے اس کی تلاشی مہم چلائی جا رہی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے اسے چرایا بھی ہے تو یہ کسی کے کام کا نہیں ہے ۔ بس اسے لوہے کے کباڑ کی شکل میں ہی فروخت کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ اس پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ آخر پوری طرح سیکیوریٹی والے بحری اڈے کے علاقے میں جب یہ رڈار استعمال کیا جا رہا تھا تو اسے چرانا کیسے ممکن ہوا ہوگا ؟ کیا یہ بحری اڈے کی سلامتی اور سیکیوریٹی پر سوالیہ نشان نہیں ہے ؟