کرناٹک میں شکست کے اسباب پر بی جے پی غور کرنے پر مجبور ، اعلیٰ ریاستی لیڈرووں کی میٹنگ
نئی دہلی، 26/مئی (ایس او نیوز/ایجنسی) کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست فاش نے پارٹی کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے اعلی لیڈروں پر مشتمل ایک میٹنگ ہوئی جس میں لیڈروں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اب کانگریس کے انتخابی داؤ بی جے پی پر بھاری پڑ رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پرانی پنشن اسکیم ،مفت بجلی، بے روزگاروں کے لیے بے روزگاری الاؤنس ، گیس سلنڈر کی قیمتوں میں کمی اور خواتین کے لیے خصوصی الاؤنس کے کانگریس کے وعدوں نے نہ صرف ہماچل پردیش اور کرناٹک جیسی ریاستوں کو بی جے پی سے چھین لیا ہے، بلکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کے لئے خظرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ اگر پارٹی نے اپنی حکمت عملی نہیں بدلی تو اسے آئندہ کچھ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش اور کرناٹک کے انچارج ارون سنگھ کے ساتھ میٹنگ میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے اعتراف کیا کہ کرناٹک ان کے ہاتھ سے نکلنے کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے انتخابی وعدے اور اعلانات تھے جس کا بی جے پی کوئی جواب نہیں دے سکی۔ اس کے ساتھ ہی لیڈروں نے اعتراف کیا کہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان نے بھی پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
بی جے پی کے ایک قومی سطح کے لیڈر کا کہنا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس کی مقبول عام اسکیموں نے عوام کے ایک حصے کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے بی جے پی کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑ سکتی ہے۔ ان کے مطابق اگلے انتخابات میں پارٹی نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتر سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے بھی خواتین، نوجوانوں اور دیگر طبقات کے لیے فلاحی اسکیموں کے ذریعے ان طبقات کے لیے کافی کام کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار پر نجوائے گوہاٹھا کرتا نے کا کہنا ہے کہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے کمزور شہریوں کی مدد کرے اور اسے مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی سیاسی جماعتیں عوام سے یہ وعدہ کرتی ہیں، انہیں اس کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ملتا ہے لیکن وہ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں کانگریس کی جیت کو صرف ان اسکیموں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔ ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے تنگ آکر لوگ متحد ہو گئے جس کی وجہ سے بی جے پی حکومتوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
گوہاٹھا کر تانے کہا کہ کرناٹک کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا، لیکن سماج کے دیگر طبقات نے اس کی پالیسیوں کے خلاف ریلی نکالی اور بی جے پی کی بہت جارحانہ اور قیمتی انتخابی مہم کام نہیں کر سکی۔ ہماچل پردیش میں اقلیتی طبقہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کے بعد بھی بی جے پی نے وہی مسائل اٹھائے۔ اس کا نتیجہ اسے شکست کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی لیڈروں نے یہ بات ایسے وقت میں قبول کی ہے جب کہ لوک سبھا انتخابات اگلے ہی سال ہیں۔