’انقلابی گارڈز دہشت گرد تو پھر امریکی فوج بھی دہشت گرد‘: ایران
تہران،8؍اکتوبر (ایس و نیوز؍ آئی این ایس انڈیا )ایران کے طاقتور محافظین انقلاب کے سربراہ نے امریکا کو تنبیہ کی ہے کہ وہ ان گارڈز کو دہشت گرد قرار دینے کی غلطی نہ کرے۔ جنرل جعفری کے بقول امریکا نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو ایران بھی امریکی فوج کو دہشت گرد قرار دے دے گا۔
ایرانی دارالحکومت تہران سے اتوار آٹھ اکتوبر کے روز نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر امریکا نے ایران کے خلاف مزید کوئی پابندیاں عائد کیں یا ایرانی محافظین انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے جیسے کوئی غلطی کی، تو بہتر ہو گا کہ وہ علاقے میں موجود اپنے فوجی اڈے ایرانی سرحدوں سے مزید دور لے جائے۔اس حوالے سے ایرانی محافظین انقلاب کور کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے اتوار کے روز کہا، ’’اگر وائٹ ہاؤس نے ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی نئے پابندیوں کا فیصلہ کیا، تو پھر امریکا کو خطے میں قائم اپنے فوجی اڈے بھی ایرانی سرحدوں سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر منتقل کر لینا چاہییں۔‘‘ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ جنرل جعفری نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ ایرانی میزائل دو ہزار کلومیٹر تک کے دائرے میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت امریکا کے ایران کے ہمسایہ ممالک یا خطے کی دیگر ریاستوں میں جتنے بھی فوجی اڈے موجود ہیں، وہ ایران کی قومی سرحدوں سے 500 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔جنرل محمد علی جعفری نے مزید کہا کہ اگر واشنگٹن حکومت نے ایران کے محافظین انقلاب کو اپنے طور پر کوئی دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی، تو یہی ایرانی عسکری کور اس بات پر بھی غور کرے گی کہ امریکی فوج کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔ایران میں انقلابی محافظین کور کو نہ صرف داخلی طور پر ملک کا ایک انتہائی طاقت ور عسکری ادارہ سمجھا جاتا ہے بلکہ انہی گارڈز کے مسلح دستے اس وقت شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے اتوار کے روز لکھا کہ جنرل جعفری کے مطابق اگر وائٹ ہاؤس نے ایران کی IRGC کو کوئی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تو ایران بھی اس بات پر غور کر سکتا ہے کہ وہ بھی امریکی فوج کو ’داعش کی طرح کی ایک تنظیم‘ قرار دے دے۔جنرل جعفری کے مطابق امریکا اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ علاقائی معاملات میں دباؤ ڈال کر ایران کو مذاکرات پر مجبور کر سکتا ہے، تو اسے واشنگٹن کی ایک ’بڑی غلطی‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ایران کا یہ تازہ موقف اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ ابھی جمعہ چھ اکتوبر کے روز ہی واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا تھا، ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی ایران سے متعلق اپنی اس پالیسی کا اعلان کر دیں گے، جو ایران کی طرف سے میزائل تجربات، دہشت گردی کی حمایت اور تہران کی سائبر سرگرمیوں پر واشنگٹن کی طرف سے تہران کو دیا جانے والا جواب ہو گی۔‘‘