زکوۃ کا نظام : خلفائے راشدین کے دور میں ۔۔۔۔۔ (آز: قادر میراں پٹیل         )

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 16th April 2021, 12:02 AM | اسپیشل رپورٹس | اسلام | ان خبروں کو پڑھنا مت بھولئے |

اسلام ایک مکمل ’’نظامِ حیات‘‘ہے۔ اس کے کچھ حصے پر عمل کرکے اورکچھ حصوں کو نظر انداز کرکے اس نظام کے فیوض اور برکات کا حصول ممکن نہیں ہے۔

ہمیں دین میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم ہے۔ اپنی مرضی کا کچھ حصہ لیا ، کچھ حصہ پر عمل کیا ،کچھ حصے کو چھوڑ دیا، اس سے اجتماعی طورپر فائدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ پوری امت کا  رویہ زکوۃ کے فریضہ سے کچھ اس طرح کا ہے۔ حالانکہ قرآن میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کا ذکر ہمیں ملتاہے۔ زکوۃ کا ذکر قرآن حکیم میں جملہ 32مرتبہ آیا ہے۔ مکی سورتوں میں 11دفعہ اور مدنی سورتوں میں 21دفعہ  دہرایا گیا ہے۔

نبی کریمﷺنے اپنے زمانے میں زکوۃ کے وصولی کےلئے بہترین نظم کیا تھا۔ زکوۃ اور صدقات وصول کرنے والے افسران ،کاتبین صدقات، باغات میں پھلوں کا تخمینہ لگانے والے ، مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے ، اس قدر اہتمام سے اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے دربارِ نبی ﷺ سےہوا کرتاتھا۔ اور آج امت اس ادائیگی سے اتنی ہی غافل ہے عاملین کو مقرر کرتے وقت ان کی قابلیت ، دیانت ، امانت اور احساسِ ذمہ داری والے اصحاب کو ہی متعین فرماتے تھے۔

حضرت عمر فاروق ؓ کو مدینہ کے اطراف ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو بنو کلب،عمرو بن عاصؓ کو قبیلہ فزارا ، حضرت عدی بن حاطم ؓ قبیلہ طئے اور اسد کی ذمہ داری دی ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو عزینہ اور کنانہ قبیلے کے لئے معمور فرمایا ۔ اپنے اصحاب میں سے اعلیٰ دماغ اور ذہین و فطین شخصیات کو مقرر کیا۔ ان کو ہدایات تھیں ، سختی کے ساتھ ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ کے لئے عمدہ مال چھانٹ چھانٹ کر نہ لیں۔

زکوۃ دینے والے مقام پر جا کر وصول کریں ۔ اور ان کے لئے دعائے خیر کریں۔ پھر زکوۃ دینے والے کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ وصول کرنے کےلئے عاملین ان کے پاس آئیں تو خوشی سے واپس جائیں۔ آپﷺ زکوۃ وصول کرنے والوں کا محاسبہ کرتے ، ان کے لئے تنخواہ یا مشاہیرہ مقرر فرماتے تھے۔ مالی نظام کے باقاعدہ حساب کتاب کا شعبہ ، اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں موجود تھا۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ ریاست کے گویا محاسب مقرر تھے۔  

سن 9ھجری میں رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایاتھا۔ اور ہدایت دی تھی کہ تمہارا واسطہ یمن میں اہل کتاب سے ہوگا۔ اہل ِ یمن کو پہلے توحید کی دعوت دینا، اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ ان پر وز وشب میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ جب وہ نماز پڑھ لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔

حضرت نبی ﷺ کی وفات کے بعد جب صدیق ِ اکبرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو مدینہ کے آس پاس کے قبائل نے زکوۃ بیت المال میں ادا کرنے سے انکار کیاتو ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔مانعین ِزکوۃ کا مسئلہ ان کے خلافت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ اور ابوبکر ؓ جیسا نرم خو، نرم طبیعت کے انسان نے اس کو سختی کے ساتھ نپٹا ۔ اور حضرت عمرؓ جیسا جلالی شخص جو اپنے سامنے شریعت کا چھوٹا سا مسئلہ کے خلاف کچھ برداشت کرنے والے نہ تھے۔ مگر ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کیا کہ جو لوگ توحید کے قائل ہیں ان کا خون بہانا صحیح نہیں ہے۔ ان کا معاملہ خدا کےساتھ ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے موقف کے حق میں دلائیل کے انبار کھڑے کئے اور سختی کے ساتھ اپنے موقف پراڑے  رہے۔ حضرت ابوبکرؓنے اعلانیہ کہاکہ نماز اور زکوۃ میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ اس معاملےمیں کسی قسم کی نرمی برتنے کےلئے تیار نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ اونٹی کی رسی بھی( بعض روایتوں کے مطابق بکری کا بچہ کا لفظ ہے) رسولﷺ کو دی جاتی تھی اسے بھی میں لے کر رہونگا۔ ارشادِ صدیقی ؓ کے مطابق جو شخص نماز اور زکوۃ میں فرق کرے گا میں ا س سے ضرور لڑونگا۔ چونکہ زکوۃ مال کا حق ہے۔

حضرت عمرفاروق ؓ پہلے تو ان کے موقف کی تائید نہیں کی تھی ،صحابہ ؓ کے گروہ میں سے بہت سارے اصحاب نے صدیق اکبرؓ کے اس موقف کی تائید نہیں کی تھی ۔ مگر حضرت عمرؓ نے بعد میں کہاکہ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق ؓ کا سینہ قتال کے لئے کھول دیا ہے۔ میری  سمجھ میں آگیا کہ یہی حق ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا یہ واضح موقف اور صحابہ ؓ کی اکثریت کی تائید سے یہ مسئلہ مانعین ِ زکوۃ سے قتال کیا جانا چاہئے۔

یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ دورِ صدیق ؓ کی اسلامی حکومت پہلی حکومت تھی جس نے سماج کے غریب ، مسکین اور کمزور طبقے کے حقوق کے لئے جنگ کی ، جب کہ طاقتور طبقہ ان کے حقوق غصب کرتے آیا تھا۔ حکام  ہمیشہ مالداروں اور طاقتوروں کے ساتھ ہی رہا کئے ، غریبوں کا استحصال ہوتارہا اور آج تک ہورہاہے۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں زکوۃ کی تقسیم کی صورت حال کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے یمن سے جب زکوۃ کا ایک تہائی حصہ مدینہ روانہ کیا تو خلیفہ ٔ وقت نے لینے سےانکار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے ٹیکس یا جزیہ وصول کرنے کے لئے آ پ کو نہیں بھیجا تھا، بلکہ اس لئے بھیجا تھا کہ ان کے اعتبار سے زکوۃ وصول کرکے انہی کے فقراء میں تقسیم کردو۔ حضرت معاذؓ نے جواب میں لکھا کہ میں نے زکوۃ لینے والے کسی شخص کو محروم رکھ کر نہیں بھیجا ہے ۔ دوسرے سال معاذؓ نے نصف مال ارسال کردیا۔ دونوں میں پھر یہی باتیں ہوئیں۔ تیسرے سال پوری زکوۃ کی وصول شدہ رقم ارسال کی۔ پھر وہی سوال جواب ہوئے۔ اور حضرت معاذؓ نے کہاکہ یہاں زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ نے خلیفہ ٔ وقت کو لکھا کہ صدقہ اور زکوۃ کی رقم لینے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اب  اس رقم کا وہ کیا کریں۔ عمر بن عبدالعزیزؒنے لکھ بھیجا کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کرو۔ شاہراہوں پر مسافروں کے لئے آرام گاہیں تعمیر کرو، ان نوجوان مردوں اور عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہواہے۔ ابن ِ کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ خلیفہ خصوصی طورپر اس کام کے لئے ایک شخص کو مقرر کیا تھا جو شہر کی گلیوں میں اعلان کرتاتھا ’’کہاں ہیں مقروض لوگ، جو اپنا قرض ادا نہیں کرسکتے، کہاں ہیں وہ لوگ ، جونکا ح کرنا چاہتےہیں ۔ کہاں ہیں محتاج اور حاجت مند ، کہاں ہیں یتیم اور بے سہارا لوگ ‘‘کوئی جواب موصول نہیں ہوتاتھا۔ سوسائٹی میں تمام لوگ مالدار ہوگئے تھے ، غربت اور مفلسی کا خاتمہ ہوگیاتھا۔

خلفائے راشدین کے بعد اموی دور میں نظام خلافت بدل گیا ۔ حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے ، بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ زکوۃ کیسے دی جائے، انہیں زکوۃ کا امین کیسے قرار دیاجائے۔ اس وقت کے باحیات صحابہ کرام ؓ نے یہی رائے دی کہ زکوۃ انہی کو دی جائے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے طورپر خرچ کرڈالو۔ انہی ایام میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے پوچھا ’اب زکوۃ کیسے دیں ‘۔ انہوں نے کہاکہ ’وقت کے حاکموں کو‘ ۔ اس شخص نے کہا’وہ زکوۃ کی رقم اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں‘۔’اگر چہ ایسا کرتےہیں مگر زکوۃ انہی کو دو‘۔

تاریخ کامطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوکر ملتی ہے کہ صدرِ اول سے آخری عہد ِ عباسیہ تک یہ نظام بلا استثناء قائم رہا ۔ لیکن ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کا سیلاب اسلامی ممالک میں امڈ آیا، نظام خلافت معدوم ہوگیا ، سوال پیدا ہواکہ اب کیا کیا جائے۔ کیونکہ حاکم غیر مسلم تھے اورا ن کے ہاتھوں میں زکوۃ نہیں دی جاسکتی ۔ عام طورپر فقہا کی رائے یہی ہے کہ جہاں حکمراں مسلم نہیں ہیں،مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنے میں سے امیر مقرر کریں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہ جائے۔

مسلم معاشرے میں اجتماعی طورپر زکوۃ کی وصولی ہو اور قرآنی ہدایات کے مطابق خرچ کی جائے۔ لیکن رفتہ رفتہ امت میں بگاڑ پیدا ہوتاگیا، نماز کے قیام کے لئے مسجدیں تعمیر ہوئیں ، مگر زکوۃ کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان  جیسے ملک میں  مسلم آبادی جہاں اقلیت میں رہنے کے باوجود ، پندرہ کروڑ کی آبادی میں اگر 1/3بھی صاحب ِ نصاب ہوتو ہزاروں کروڑوں روپئے زکوۃ بیت المال میں جمع ہوسکتےہیں۔ مگر شریعت کےمطابق اس کی جمع اور تقسیم نہیں ہورہی ہے، اس لئے اس عظیم عبادت کی برکات سے امت محروم چلی آرہی ہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی ؒنے اپنی کتاب ’’اسلام ایک نظر میں ‘‘لکھا ہے کہ مسلم بستیاں جس طرح اپنی نمازوں کے لئے مسجد کا ،جماعت کا ، امامت کا انتظام کرتی ہیں اسی طرح اپنی زکوۃ کے لئے بھی بیت المال قائم کریں ، بستی کی زکوۃ اکھٹی کریں ، مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کریں ، تاکہ اسلام کے اس اہم رکن کا جو منشا ہے وہ نظم حکومت کی عدم موجودگی میں بھی اس قدر حاصل ہوتارہے جس قدر حاصل کیا جاسکتاہے۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو یہ اجتماعی غلط کاری ہوگی۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی تقریباً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کی ایک کتاب ’’حقیقت ِ زکوۃ‘‘میں انہوں نے لکھا ہے ’’زکوۃ کے نظام سے لوگ بتدریج غافل ہوگئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا زکوۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ خود حساب کرکے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود خرچ کرڈالیں۔ حالانکہ جس زکوۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعاًیہ طریقہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوۃ کسی امین زکوۃ یا بیت المال کے حوالے کرنےکی جگہ خود خرچ کر ڈالتی ہے وہ دیدہ و دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقناً عنداللہ اس کے لئے جوابدہ ہوگی‘‘۔ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں قوم کی اجتماعی زندگی کے لئے کبھی کفیل نہیں ہوسکتی ۔ اس صورت حال کا علاج وہی ہے جو اسلام نے چودہ سوسال پہلے تجویز کیا تھا۔ یعنی قانون سازی کے ذریعہ قوم کی پوری کمائی کا خاص حصہ کمزور افراد کی خبرگیری کے لئے مخصوص کردینا۔ یعنی قوم کے آسودہ حال لوگوں سے وصول کرکے غریب و مسکین لوگوں میں بانٹ دو۔ تاکہ دولت، دولت مندوں کی اجارہ داری نہ بن جائے۔

ادائے احکام میں جس طرح یہودیوں نے ’’حیلے ‘‘نکالنےشروع کئے تھے مسلمانوں میں بھی یہ مرض سر اٹھا چکا ہے۔ مولانا آزاد اسی طرف اشارہ کرتےہوئے لکھتےہیں ’’کہ اس کا ایک مشہور طریقہ یہ بتایاگیا جو شخص زکوۃ سے بچنا چاہے اپنا مال برس ختم ہونے سے پہلے دوسرے کے ہبہ کرے۔ اس طرح باوجود مالدار ہونے کے دونوں پرسے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ مثلاً شوہر نے اپنی بیوی سے رجب کے مہینےمیں کہہ دیا کہ میں اپنا مال تجھے ہبہ کردیا۔ اس نےکہا قبول۔ اب شوہر پر زکوۃ نہیں رہی۔ بیوی پر بھی زکوۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ 12مہینے گذر جائیں گے۔ بارہ مہینے سے پہلے وہ شوہر سے کہہ دے گی کہ میں مال اب تمہیں ہبہ کردیا۔ اس طرح نیک بخت عورت پر سے بھی زکوۃ ساقط ہوگی۔ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنا فسق و ضلالت کی انتہا ہے۔ پڑوسی ملک میں مرحوم ضیاءالحق کے زمانےمیں ایک آرڈننس لایاگیا کہ بنکوں میں جو رقومات جمع ہیں ان پر اگر زکوۃ لاگوہوتی ہے تو زکوۃ نکالی جائے۔ البتہ فقہ جعفریہ ، اہل تشیع کو اس آر ڈننس سے مستثنیٰ قرار دیاگیا ۔ مگر افسوس کہ بہت سارے کروڑ پتی اور ارب پتی سُنِّیوں نے اپنے آپ کو شیعہ ڈیکلر کردیا۔ تاکہ بنکوں میں جمع شدہ رقم سے زکوۃ کاٹنے سے بچ جائیں۔ امت کا حال یہ ہے تو پھر اس کی اجتماعیت کو بکھیرنے سے کونسی طاقت روک سکتی ہے۔

اب بھی اگر امت کا طبقہ علماء، دانشورانِ ملت ، نمازکی زکوۃ کی اجتماعیت کے لئے کوشش کریں اور امت کے دیانت دار ، امانت دار اور صالح عناصر آگے آئیں تو یہ عبادت ، حقیقی طورپر عبادت ہوگی اور اس کے فیوض و برکات سے امت محظوظ ہوگی۔ ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ دنیا میں رائج دوسرے طریقے جو اب تک ناکام ہورہے ہیں ، اسلامی اقتصادی نظام سے انسانیت کی فلاح و بہبود ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس مسئلے کی حقیقت کو امت پر اجاگر کردے اور زکوۃ کے اجتماعی نظام کو نافذکرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین۔

صدقات کی برکت کی زندہ مثال :سیدنا عثمان ؓ نے ایک کنویں کی شکل میں انفاق کا چشمہ 14ویں صدی قبل جاری کیاتھا۔ وہ ترک دور میں پھیل کر ہزاروں درختوں پر مشتمل ایک باغ بن گیا۔ اور وہ آج اعلیٰ ترین کوالٹی کے کھجوروں کا وسیع فارم ہے۔ آج بھی یہ باغ عثمان بن عفانؓ کی ملکیت ہے جس سے حکومت نے مدینہ میں ایک ہوٹل ’’فندق عثمان بن عفانؓ‘‘ تعمیر کیا جس کی آمدنی مزید لاکھوں ریال پر مشتمل ہوگئی۔ یہ سارا خزانہ آج بھی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ذاتی اکاونٹ میں مستقل جمع ہورہاہے۔ اس اکاونٹ سے انفاق کی کئی تازہ اور شفاف نہریں پھوٹ رہی ہیں۔

جماعت اسلامی ہند نے شریعت کےاجتماعی نظام کو زندہ رکھنےکی کاوشوں اورجدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ ملک بھر میں زکوۃ کا بہترین  اجتماعی  نظم  ہے۔ جو کوئی اس سلسلےمیں اتباع شریعت میں اپنی زکوۃ غریبوں، مسکینوں، بےسہاروں، یتیموں ، لاچاروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ جیل میں بند قیدیوں کی گردنیں چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے دیگر رفاعی و فلاحی کاموں کا حصہ بننا چاہتے ہیں ان سے التماس ہے کہ وہ اپنی زکوۃ جماعت اسلامی ہند کے بیت المال میں جمع کریں۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

اپنے روزوں کی شیطان سے حفاظت کیجیے ..................... آز: ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

شیطان ہر انسان کے ساتھ لگا ہے۔اس نے اللہ تعالیٰ کو چیلینج دے رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں کو راہ راست سے بھٹکاؤں گا۔حضرت آدم ؑ کے ساتھ شیطان کو بھی زمین پر اتارا گیا تھا۔اس دن سے آج تک ابلیس و آدم ؑکی کشمکش جاری ہے۔ابلیس کئی طرح سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ انسان کو گناہ کی ...

قربانی: رسم سے آگے ................... آز: کامران غنی صباؔ

اسلام کی کوئی بھی عبادت صرف رسم نہیں ہے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو ان حکمتوں کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔

عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کا خاص اہتمام کریں، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے! مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی ہارون ندوی اور مولانا احمد ومیض ندوی نقشبندی کا خطاب!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء جلگاؤں کے صدر اور وائرل نیوز کے ڈائریکٹر حضرت مولانا مفتی ہارون ندوی صاحب نے فرمایا کہ قربانی اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔اسی لئے ...

زکاۃ اسلام کا خوب صورت معاشی نظام ................ از: خورشید عالم داؤد قاسمی

زکاۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک ایسا کمیاب نظام ہے، جو فقیروں کی ترقی کا ضامن اور مسکینوں کی خوش حالی کا کفیل ہے۔زکاۃ اسلام کا ایسا اہم نظام ہے کہ اس کے ذریعے سماج سے غربت کا خاتمہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اس سے امیروں اور فقیروں کے درمیان محبت ...

لیلۃ القدر؛ہزار مہینوں سے افضل رات۔۔۔۔ از: عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

    اگر دنیا کے کسی سوداگرکو یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں مہینے اورتاریخ کوہمارے قریبی شہر میں ایک میلہ لگنے والا ہے؛جس میں اتنی آمدنی ہو گی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزارگنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیرمعمولی نفع ہوگا،تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دے گا؟اور اس سے ...

بھٹکل: پی یو سی دوم میں انجمن پی یو کالج(بوائز) کو سائنس اسٹریم میں ملی صد فیصد کامیابی

سکینڈ پی یو سی  سائنس اسٹریم میں  انجمن بوائز پی یو کالج کو صد فیصد کامیابی ملی ہے، اور 61  طلبہ میں سے سبھی 61 طلبہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس بات کی اطلاع کالج پرنسپال  یوسف کولا  نے دی۔یاد رہے کہ 10 اپریل کو آن لائن کے ذریعے نتائج ظاہر کئے گئے تھے،  لیکن  اب    پی یو  بورڈ  کی طرف سے ...

کینیڈا میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کا گولی مار کر قتل

کینیڈا کے شہر وینکوور کے علاقے سن سیٹ میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کو اس کی کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس نے اتوار کو یہ جانکاری دی۔ وینکوور پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 24 سالہ چراغ انٹیل علاقے میں ایک گاڑی کے اندر مردہ پایا گیا۔

کیرالہ میں وزیر اعظم مودی کی سیکورٹی کے لئے لگائی گئی رسی میں پھنس کر نوجوان کی موت

وزیر اعظم کی سخت سیکوریٹی کے بارے میں تو سھی جانتے ہوں گے مگر اس سخت سیکوریٹی کی وجہ سے اگر کسی کی جان جانے لگے تو معاملہ تشویشناک ہو جاتا ہے۔ پی ایم مودی  جنوبی ہندوستان کے انتخابی مہم کے تحت دورے پر ہیں جہاں کیرالہ میں ان کی سیکوریٹی کے لیے لگائی رسی میں پھنس کر ایک نوجوان کی ...

کیجریوال کو نہیں ملی سپریم کورٹ سے راحت، عدالت کا جلد سماعت سے انکار

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو فوری راحت دینے سے انکار کرتے ہوئے ای ڈی کی گرفتاری کے خلاف ان کی عرضداشت پر 29 اپریل کو سماعت کی تاریخ طے کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ای ڈی کوبھی نوٹس جاری کیا ہے اور اسے 24 اپریل تک جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ میں اروند ...

کنداپور میں دستور کی حفاظت کے لئے دلت تنظیموں کی ریلی 

دیش کا دستور وضع کرنے والے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے 133 ویں جنم دن پر  کنداپور شاستری سرکل کے پاس منعقدہ دلت تنظیموں اور دیگر ہم خیال اداروں کی مشترکہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سینئر دانشور پروفیسر فنی راج نے کہا کہ اس وقت ملک میں دستوری مراعات اور حقوق کو ختم کرنے کی کوشش کی جا ...

دہلی شراب گھوٹالہ معاملے میں کے کویتا کو 23 اپریل تک عدالتی حراست

دہلی کی ایک عدالت نے مبینہ دہلی شراب گھوٹالہ معاملے میں درج منی لانڈرنگ کے کیس میں بھارت راشٹر سمیتی کی ایم ایل سی کے کویتا کو 23 اپریل تک عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔ سی بی آئی کی حراست ختم ہونے کے بعد کویتا کو راؤز ایونیو کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں جج کاویری باویجا نے انہیں سی ...