کرناٹک : استعفیٰ دینے والوں کی فہرست میں یلاپور رکن اسمبلی ہیبار بھی شامل۔کیاوزارت کے لالچ میں چل پڑے آنند اسنوٹیکر کے راستے پر؟
بھٹکل 7/جولائی (ایس او نیوز) ریاست کرناٹک میں جو سیاسی طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور اب تک کانگریس، جے ڈی ایس مخلوط حکومت کے تقریباً 13 اراکین اسمبلی اپنا استعفیٰ پیش کرچکے ہیں اس سے مخلوط حکومت پر کڑا وقت آن پڑا ہے اور قوی امکانا ت اسی بات کے دکھائی دے رہے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے سینئر قائدین کی جان توڑ کوشش کے بعد بھی اس حکومت کا بچنا مشکل ہے۔
وزارت نہ ملنے سے مایوسی: بتایاجاتا ہے کہ وزارتیں نہ ملنے سے مایوس اور بی جے پی کی پہلے سے جاری کوشش اور ترغیب کی وجہ سے مخلوط حکومت کے اراکین اسمبلی برگشتہ ہوگئے ہیں۔جہاں تک ضلع شمالی کینرا کا تعلق ہے یہاں پر سیاسی عہدے اور وزارت کے لالچ میں اپنی پارٹی سے بغاوت کرنے کا رواج کچھ برس پہلے تک نہیں تھا۔ سیاسی جانکاروں کا کہنا ہے کہ اس کی شروعات آنند اسنوٹیکر سے ہوئی تھی جنہوں نے کانگریس امیدوار کے طور پر الیکشن جیتنے کے ایک سال بعدبی جے پی کے پاس ملنے والا وزارت کا قلمدان دیکھ کر پارٹی سے بغاوت کی اور بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے جنتادل ایس میں رکنیت حاصل کی۔ اور حالیہ الیکشن میں مشترکہ امیدوار ہونے کے باوجود بری طرح ہار گئے۔
آگے بڑھی اسنوٹیکر کی روایت: اب اسی روایت کو یلاپور منڈگوڈ حلقے کے کانگریسی رکن اسمبلی شیورام ہیبار نے آگے بڑھایا ہے۔دو مرتبہ اس حلقے سے انتخاب جیتنے والے شیورام ہیبار کے تعلق سے گزشتہ ایک سال سے ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ پارٹی کی طرف سے انہیں وزارت میں شامل نہ کیے جانے پر وہ سخت دل برداشتہ ہیں اور کسی بھی وقت پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن اب کی بار انہوں نے عملی قدم اٹھایا ہے اور ان باغی اراکین اسمبلی کے کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں جو مخلوط حکومت کے خاتمے کا سبب بننے جارہے ہیں۔سیاسی حلقوں میں وثوق کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ وزارت پانے کے لئے اب شیورام ہیبار آنند اسنوٹیکر کے طرح ہی اپنی جیت کے ایک سال بعد بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے۔مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا شیورام ہیبار اپنا عہدہ اور وقار بچا پائیں گے یا پھر ان کا انجام بھی آنند اسنوٹیکر جیسا ہی ہوگا؟!
یاد رہے کہ دوسری بار کانگریس کی ٹکٹ پر جیتنے والے شیورام ہیبار نے شروعات میں ہی وزارت نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی اور عہدے سے مستعفی ہونے کا من بنالیا تھا۔ لیکن ڈی کے شیوکمار اور سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے انہیں کسی طرح منالیا تھا اور وزارت نہ ملنے کی تلافی کرتے ہوئے انہیں کے ایس آر ٹی سی کا چیرمین بنادیا تھا۔ خبر ہے کہ ہیبار کا دل وزارت سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں تھا، اس لئے موقع دیکھ کر انہوں نے پارٹی سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے باغیوں کی فہرست میں شمولیت اختیار کرلی۔
کیا بغاوت میں ’کمل‘ شامل ہے؟: بتایاجاتا ہے کہ باغی اراکین اسمبلی نے اپنا استعفیٰ اسپیکر کے دفتر میں سونپنے کے بعد گورنرسے ملاقات کی اور پھر بی جے پی کے رکن پارلیمان راجیو چندراشیکھر کی ملکیت والے جیوپیٹر ایوی ایشن کے ذریعے ممبئی کے لئے روانہ ہوئے۔پتہ چلا ہے کہ ممبئی کے باندرا۔ کرلاکامپلیکس میں واقع ’سافیٹیل‘ ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست کیا گیا ہے اور ہوٹل کے اطراف سخت سیکیوریٹی کے انتظامات کردئے گئے ہیں۔ یہاں کم از کم دس باغی اراکین کے قیام کرنے کی بات معلوم ہوئی ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ باغی اراکین اسمبلی کو ممبئی لے جانے کا پورا منصوبہ بی جے پی کے اراکین اسمبلی اروند لمباولی اور ڈاکٹراشوتھ نارائن نے تیار کیا تھا۔
حکومت کو بچانے کی کوشش: فی الحال مخلوط حکومت کے سینئر قائدین اس صورتحال کا مقابلہ کرنے اور حکومت کو کسی بھی قیمت پر بچانے کے لئے سرجوڑ کر منصوبہ بندی کررہے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک تدبیر کے طور پرحکومت میں موجود سینئر وزراء سے درخواست کی ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر باغی اراکین کو وزارتیں دینے اور حکومت بچانے میں تعاون کریں۔اس کے ردعمل میں فوری طور پر وزیر سیاحت سا، را، مہیش اور چھوٹی آب پاشی کے وزیر سی ایس پٹا راجو نے استعفیٰ دینے کی پیش کش کردی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے ایک دن میں یہ طوفان کیا رخ اختیار کرتا ہے اور سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔