یڈی یورپا نے پھر ایک بار لیا کرناٹک کے وزیراعلیٰ کا حلف؛ کیا بی جے پی حکومت اپنی میعاد پورے کرپائے گی ؟
بنگلور 26/جولائی (ایس او نیوز) کرناٹک میں کانگریس۔جے ڈی ایس سرکار گرنے کے بعد آج جمعہ کو بی جے پی صدر بی ایس یڈی یورپا نے پھر ایک بار وزیراعلیٰ کا حلف لیا اور گورنر وجو بھائی والا نے انہیں عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔ راج بھون میں منعقدہ حلف کی تقریب میں 76 سالہ یڈی یورپا چوتھی مرتبہ ریاست کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔
آج کی تقریب میں صرف یڈی یورپا اکیلے نے ہی حلف لیا، دیگر ان کی وزارت میں کون کون رہیں گے اور کن کو کس عہدے کا قلمدان دیا جائے گا، اس تعلق سے فی الحال کوئی جانکاری نہیں مل پائی ہے۔
خیال رہے کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کانگریس۔جےڈی ایس سرکار کی ناکامی کے تیسرے دن آج بی جے پی صدر یڈی یورپا نے گورنر سے ملاقات کرتے ہوئے آج ہی حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا تھا جس کے بعد گورنر وجو بھائی والا نے اُنہیں سرکار بنانے کی دعوت دی تھی اور شام چھ بجے کو حلف لینے کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یڈ ی یورپا نے گورنر سے ملاقات کر کے 105 ارکان اسمبلی کی حمایت والا خط سونپا اور بتایا کہ انہیں قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا ہے۔ حلف برداری پروگرام میں شامل ہونے کےلئے کانگریس لیڈر سدارامیا اور سابق وزیر اعلی ایچ ڈی کمارسوامی کو بھی دعوت دی گئی تھی۔
اس سے قبل یڈی یورپا نے بتایا تھا کہ وزارت میں کن اراکین کو شامل کرنا ہےاس تعلق سے بی جے پی صدر امیت شاہ سے بات چیت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
یڈی یورپا اب کرناٹک کے چوتھی مرتبہ وزیراعلیٰ بنے ہیں، انہوں نے آخری بار مئی 2018 میں وزیراعلیٰ کا حلف لیا تھا لیکن تین دن میں ہی اُنہیں اس عہدہ کو چھوڑنا پڑ اتھا۔
یاد رہے کہ ایک ساتھ سرکار کے 17/ ارکان اسمبلی کی بغاوت کی وجہ سے کانگریس۔جے ڈی ایس اتحادی حکومت گرگئی تھی جس میں کانگریس اور جے ڈی ایس سمیت دو آزاد اُمیدوار بھی شامل ہیں کانگریس اور جے ڈی ایس کے اراکین نے اسپیکر کو استعفیٰ سونپتے ہوئے سرکار گرانے میں اہم رول ادا کیا تھا جبکہ دو آزاد اُمیدواروں نے اتحادی حکومت کی حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے بی جے پی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد کماراسوامی سرکار ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی اور وزیر اعلی کو استعفی دینا پڑا تھا۔کماراسوامی کی طرف سے پیش کی گئی تحریک اعتماد کے حق میں صرف 99 اور مخالفت میں 105 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس کے بعد یدی یورپا کے وزیراعلی بننے کا راستہ صاف ہو گیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ کل جمعرات کو ریاستی اسپیکر نے استعفیٰ سونپنے والے 17 اراکین میں سے تین اراکین کے استعفوں کو مسترد کردیا تھا اور اُنہیں نا اہل قرار دیا تھا، جبکہ دیگر 14 اراکین کے تعلق سے اگلے دو دنوں میں فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسپیکر نے یہ بھی کہا تھا کہ نا اہل قرار دئے گئے تینوں اراکین 15ویں ریاستی اسمبلی کے تحلیل ہونے تک الیکشن بھی نہیں لڑسکیں گے۔
یدی یورپا کے لئے بھی راہ آسان نہیں : یڈ ی یورپا نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف تو لے لیا لیکن کہا جارہا ہے کہ ان کی راہ اتنی آسان بھی نہیں ہے کیوں کہ انہیں ابھی فلور ٹیسٹ سے گزر کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا۔ کرناٹک کے گورنر وجو بھائی والا نے بی ایس یڈی یورپا کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے جس کے اندر اُنہیں اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنی ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے 17 مئی 2018 کو بھی یڈی یورپا نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا لیکن اسمبلی میں اکثریت نہ ثابت کر پانے کے سبب انہیں محض تیسرے دن ہی یعنی 19 مئی کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑ گیا تھا۔ اب انہوں نے 434 دن بعد پھر سے حلف تو لے لیا ہے لیکن وہ اکثریت ثابت کر پائیں گے یا نہیں یہ وقت ہی بتا پائے گا۔
یڈی یورپا کے پاس خاطر خواہ تعداد ہی نہیں تو حکومت سازی کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں ؟: بی ایس یڈی یورپا کے پھر ایک مرتبہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے پر کانگریس پارٹی کی طرف سے بی جے پی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ کانگریس نے کہا ہے کہ کر ناٹک میں جمہوریت کو ذبح کیا گیا ہے۔ کرناٹک کانگریس کی طرف سے بی ایس یڈ ی یورپا کی حلف برداری سے قبل ٹوئٹ کر کے ان پر حملہ بولا گیا۔ ٹوئٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’بدعنوانی کے آئیکان اور جیل میں سزا کاٹ چکے بی ایس یڈی یورپا ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا استعمال کر کے اقتدار میں واپسی کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے لوگوں کو یڈی یورپا کی 2008-2011 والی مدت کار یاد ہے، جس کے آخر میں انہیں جیل جانا پڑا تھا۔‘‘ کانگریس نے مزید کہا کہ کرناٹک میں تارخ کو دوہرایا جا رہا ہے۔
ایک دوسرے ٹوئٹ میں کانگریس نے لکھا، ’’کرناٹک میں جمہوریت کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ یڈی یورپا کے پاس اگر خاطر خواہ تعداد نہیں ہے تو وہ حکومت سازی کا دعوی کس طرح پیش کر سکتے ہیں! گونر جو کہ آئین کے محافظ ہیں انہوں نے اس کی اجازت کیوں دی؟ قانون کی بالادستی کہاں ہے!‘‘