خواتین نسلوں کی معمار ہوتی ہیں۔سید امین القادری گلبرگہ میں ختم بخاری شریف، ۷،عالمات کی ردا ء پوشی،علماء کرام کے پر مغز بیانات
گلبرگہ، 13 مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)شہر گلبرگہ میں عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی شاخ گلبرگہ کا سالانہ سنی اجتماع کا کل پہلادن تھا جو خواتین کے لئے مخصوص تھا۔پروگرام کاآغازدوپہر ۲، بجے رئیس القراء قاری ریاض احمد کے تلاوت کلا م پاک سے ہوا پھر انہوں نے بارگاہ رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیہ نعت پاک پیش کی۔ 2-30 /علامہ محمد احمد مصباحی نا ظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی،نے دارالعلوم رضائے مصطفے ٰ کی شاخ ”مدرسہ فیض مصطفےٰ للبنات“ سے فارغ ہونے والی۷، طالبات کو بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا،اس کے بعد بانی دارالعلوم رضائے مصطفے حضرت فیض الدین سرمست صاحب کی اہلیہ صاحبہ و حضرت تاج الدین بابا جنیدی صاحب کی اہلیہ محترمہ صاحبہ نے عالمات و فارغات کی رداء پوشی و گل پوشی کی یہ بڑا ہی سہانہ اور روح پرور منظر تھا جب قوم کی نو نہال بچیوں کو ردائے فضیلت سے نوازا گیا۔پھر جناب امتیاز رضوی اور صادق رضو ی صاحبان ممبئی نے انتہائی پر مغز خطاب فرماکر خواتین کو اسلام کے احکام و فرامین کے مطابق زندگی گزارنے پر زور دیا ساتھ ہی عورتوں سے متعلق حالات حاضرہ کے مسائل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا۔بعد عصرپرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی صاحب نے خواتین کی طرف سے پوچھے جانے والے شرعی سوالات کے نہایت دلنشیں انداز میں جوابات مرحمت فرمائے۔نماز مغرب کے وقفہ کے بعد آل رسول سید امین القادری صاحب مالیگاؤں نے نصیحت آمیز خطاب فرمایا۔انہونے اپنی تقریر میں کہا: نسلیں خواتین کی گود میں پرورش پاتی ہیں یہی گود بچوں کی پہلی درسگاہ ہے ماں جیسی تربیت کرے گی نسلیں ویسی ہی پروان چڑھے گی۔آج مسلم عورتوں میں بہت سی برائیاں پنپ رہی ہیں جس سے گھر کا ماحول خراب ہورہاہے رشتوں میں دراریں آرہی ہیں حالات نازک ہوتے جارہے ہیں۔آج حالات خراب کرنے کی نہیں بنا نے کی ضرورت ہے گھر بگاڑنے کی نہیں سنوارنے کی ضرورت ہے گھر بنانا بگاڑنا عورتوں کے ہاتھوں میں ہے اس لئے گھر کو ٹوٹنے سے بچاؤ اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرو تاکہ اچھی نسل پروان چڑھے جو دین و سنت کا کام کرے سنت رسول پر عمل کرکے دنیا و آخرت کو سنوارے۔خواتین کامجمع کثیر تھا دور دراز کے علاقوں سے خواتین کی کثیر تعدادمیں گاڑیا ں بھر بھر کے آئیں تھیں جس سے میدان وسعت کے باوجود تنگ نظر آیا۔ان کی سہولت کا ہر طرح خیال رکھا گیا نماز کے وقت وقفہ دیکر نماز ادا کی گئیں پھر بیانات و خطابات اورحمدو نعت کا سلسلہ جاری رہا۔