اکثریتی گروہوں کی اشاروں پر بلا جواز گرفتاریوں سے ملک کی شبیہہ خراب ہورہی ہے، اقلیتوں کے ساتھ پولیس کے معاندانہ رویہ پر'دی ہندو' کا ایڈیٹوریل ۔ ترجمہ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب
پاکستان کے یوم جہموریہ کے موقع پر ایک بے ضرر سا پیغام پوسٹ کرنے پر حال ہی میں ہوئی باگلکوٹ ڈسٹرکٹ کی 25 سالہ خاتون کی گرفتاری حکام کی طرف سے قانون کے تیڑھے اور غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے ۔ اگر یہ ماضی میں بغیر سوچے سمجھے لگائی گئی ملک سے غداری کی دفعات ہیں جن میں ایک ڈرامہ اسٹیج کرنے والے اسکولی بچے بھی شامل تھے تو تازہ معاملہ میں مختلف طبقات میں دشمنی پیدا کرنے کا الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے ۔ خدیجہ شیخ کو گرفتاری کے دن ہی ضمانت مل گئی، لیکن یہ واقعہ کچھ کم بد حواس کرنے والا نہیں ہے ، کیونکہ یہ اشارہ کرتا ہے کہ حد سے زیادہ پرجوش اور انتظامیہ میں غیر متناسب اثر و رسوخ رکھنے والے گروہوں کے اشاروں پر بغیر مناسب وجوہات کے اقلیتی طبقہ کے افراد کو کتنی آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔
اس تازہ معاملہ میں مدرسہ کی طالبہ نے 23 مارچ کو کہا تھا :"خدا تمام ممالک کو امن، اتحاد اور یکجہتی سے سرفراز رکھے ۔" لیکن ایک مقامی ہندو کارکن نے پولیس کے پاس شکایت درج کروائی کہ یہ خاتون پاکستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر وہاں کے لوگوں کو مبارک باد دیتے ہوئے مختلف طبقات میں دشمنی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ پولیس نے ناقابل حیرت جلد بازی دکھاتے ہوئے اس خاتون کے خلاف مختلف طبقات کے درمیان دشمنی پیدا کرنے والی تعزیری دفعات کے تحت کیس داخل کیا ۔ اب اس خاتون کی مبارکباد آئی پی سی کی دفعہ 153a یا 505(2) کے ذیل میں کیسے آتی ہے ، اس کی وضاحت پولیس ہی کر سکتی ہے ۔ ضلع پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس گرفتار کا مقصد امن و امان اور قانون کی صورتحال کا تحفظ کرنا تھا ۔ مگر یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے شکایت میں کوئی دم ہونے یا نہ ہونے کو یقینی بنائے بغیر ہی آقاوں کے وفاداروں کی طرح عمل کیا ہے ۔
طالبات کی طرف سے حجاب پہننے پر جب سے تنازع پیدا ہوا ہے ، دائیں بازو کے گروہوں میں مسلمانوں کو نشانہ بناکر مشکلات کھڑی کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔ ان گروہوں نے مندروں کے تہواروں میں کاروبار کرنے والے مسلم دکانداروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ حالانکہ ریاستی حکومت قانون کا حوالہ دے رہی ہے جس کے تحت غیر ہندووں کو مندر کے احاطہ میں پراپرٹی لیز پر لینا ممنوع ہے ، مگر کیا یہ قوانین تہواروں پر لگنے والے عارضی اسٹالوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں؟ یہ بات ابھی مشکوک ہے ۔ یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ ریاستی حکومت اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے ضروری قدم نہیں اٹھا رہی ہے کہ انتظامیہ اقلیتوں کے تعلق سے معاندانہ رویہ رکھتی ہے ۔
بلاجواز گرفتاریاں، بالخصوص معمولی وجوہات اور فرقہ وارانہ جذبات سے درج شکایات پر کی گئی گرفتاریوں کا نتیجہ غیر منصفانہ قید ، زندگیوں کی بربادی اور انصاف کے حصول میں بے حد تاخیر کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ایک ایسی حکومت کو جو اپنے مذہبی رواداری اور حقوق انسانی کے ریکارڈ پر ہونے والی سخت تنقید کو ذرا بھی برداشت نہیں کرتی، مرکزی حکومت کو بھی یکساں طور پر ان واقعات کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہہ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کی طرف توجہ دینا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کے معاملہ میں کچھ کرنا مرکز کی ذمہ داری نہ ہو ، مگر وہ اکثریتی گروہ اور افراد کو خوش کرنے کے لئے پولیس کی طرف سے گرفتاریوں میں بے پروائی کے ساتھ قانون کے استعمال پر روک لگانے کی ہدایت دے سکتا ہے ۔