اکثریتی گروہوں کی اشاروں پر بلا جواز گرفتاریوں سے ملک کی شبیہہ خراب ہورہی ہے، اقلیتوں کے ساتھ پولیس کے معاندانہ رویہ پر'دی ہندو' کا ایڈیٹوریل ۔ ترجمہ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب

Source: S.O. News Service | Published on 1st April 2022, 12:34 AM | مہمان اداریہ | اسپیشل رپورٹس |

پاکستان کے یوم جہموریہ کے موقع پر ایک بے ضرر سا پیغام پوسٹ کرنے پر حال ہی میں ہوئی باگلکوٹ ڈسٹرکٹ کی 25 سالہ خاتون کی گرفتاری حکام کی طرف سے قانون کے تیڑھے اور غلط استعمال  کی ایک اور مثال ہے ۔ اگر یہ ماضی میں بغیر سوچے سمجھے لگائی گئی ملک سے غداری کی دفعات ہیں جن میں ایک ڈرامہ اسٹیج کرنے والے  اسکولی بچے بھی شامل تھے  تو تازہ معاملہ میں مختلف طبقات میں دشمنی پیدا کرنے کا الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے ۔ خدیجہ شیخ کو گرفتاری کے دن ہی ضمانت مل گئی، لیکن یہ واقعہ کچھ کم بد حواس کرنے والا نہیں ہے ، کیونکہ یہ اشارہ کرتا ہے کہ حد سے زیادہ پرجوش اور انتظامیہ میں غیر متناسب اثر و رسوخ رکھنے والے گروہوں کے اشاروں پر بغیر مناسب وجوہات کے اقلیتی طبقہ کے افراد کو کتنی آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔
    
اس تازہ معاملہ میں مدرسہ کی طالبہ نے 23 مارچ  کو کہا تھا :"خدا تمام ممالک کو امن، اتحاد اور یکجہتی سے سرفراز رکھے ۔" لیکن ایک مقامی ہندو کارکن نے پولیس کے پاس شکایت درج کروائی کہ یہ خاتون پاکستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر وہاں کے  لوگوں کو مبارک باد دیتے ہوئے مختلف طبقات میں دشمنی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ پولیس نے ناقابل حیرت جلد بازی دکھاتے ہوئے اس خاتون کے خلاف مختلف طبقات کے درمیان دشمنی پیدا کرنے والی تعزیری دفعات کے تحت کیس داخل کیا ۔ اب اس خاتون کی مبارکباد آئی پی سی کی دفعہ 153a یا 505(2) کے ذیل میں کیسے آتی ہے ، اس کی وضاحت پولیس ہی کر سکتی ہے ۔ ضلع پولیس کا دعویٰ ہے کہ  اس  گرفتار کا مقصد امن و امان اور قانون کی صورتحال کا تحفظ کرنا تھا ۔ مگر یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے شکایت میں کوئی دم ہونے یا نہ ہونے کو یقینی بنائے بغیر ہی آقاوں کے وفاداروں کی طرح عمل کیا ہے ۔ 
    
طالبات کی طرف سے حجاب پہننے پر جب سے تنازع پیدا ہوا ہے ، دائیں بازو کے گروہوں میں مسلمانوں کو نشانہ بناکر مشکلات کھڑی کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔ ان گروہوں نے مندروں کے تہواروں میں کاروبار کرنے والے مسلم دکانداروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ حالانکہ ریاستی حکومت قانون کا حوالہ دے رہی ہے جس کے تحت غیر ہندووں کو مندر کے احاطہ میں پراپرٹی لیز پر لینا ممنوع ہے ، مگر کیا  یہ قوانین تہواروں پر لگنے والے عارضی اسٹالوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں؟ یہ بات ابھی مشکوک ہے ۔ یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ ریاستی حکومت اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے ضروری قدم نہیں اٹھا رہی ہے کہ انتظامیہ اقلیتوں کے تعلق سے معاندانہ رویہ رکھتی ہے ۔
    
بلاجواز گرفتاریاں، بالخصوص معمولی وجوہات اور فرقہ وارانہ جذبات سے درج شکایات پر کی گئی گرفتاریوں کا نتیجہ غیر منصفانہ قید ، زندگیوں کی بربادی اور انصاف کے حصول میں بے حد تاخیر کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ایک ایسی حکومت کو جو اپنے مذہبی رواداری اور حقوق انسانی کے ریکارڈ پر ہونے والی سخت تنقید کو ذرا بھی برداشت نہیں کرتی، مرکزی حکومت کو بھی یکساں طور پر ان واقعات کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہہ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کی طرف توجہ دینا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کے معاملہ میں کچھ کرنا مرکز کی ذمہ داری نہ ہو ، مگر وہ اکثریتی گروہ اور افراد کو خوش کرنے کے لئے پولیس کی طرف سے گرفتاریوں میں بے پروائی کے ساتھ  قانون کے استعمال پر روک لگانے کی ہدایت دے سکتا ہے ۔

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔

دکشن کنڑا اور اڈپی میں نہیں ختم ہو رہی ہیں 'غیر اخلاقی پولیس گیری'- صحافی اور پولیس والے بھی آ رہے ہیں زد میں - 6 مہینوں میں درج ہوئے 10 معاملے

دکشن کنڑا اور اڈپی ضلع میں غیر اخلاقی پولیس گری کا بھوت قابو میں آتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ امسال جون سے دسمبر تک یعنی گزشتہ 6 مہینوں میں غیر اخلاقی پولیس گری کے 10 معاملے درج ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض معاملوں کی زد میں تو صحافی اور پولیس والے بھی آئے ہیں۔

غزہ پر اسرائیل کی شدید بمباری جاری،23 لاکھ عوام جائیں تو کہاں جائیں ؟ پانی اور بجلی سے بھی محروم ہیں رہائشی

ایک جانب غزہ کی پٹی کے 23 لاکھ رہائشیوں میں سے زیادہ تر پانی اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں اور دوسری جانب چھوٹے سے محصور علاقے میں مسلسل اسرائیلی بمباری  کی وجہ سے عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں،   عوام کے لیے  راہ فرار  اختیار کرنےاور جان بچانے کے لیے کوئی محفوظ ...

اردو کا تحفظ کیوں اور کیسے کیا جائے؟ ادبی و دینی سرمایہ کی بقا کے لیے نئی نسلوں کو اردو سکھانا ضروری ........ آز: عبدالغفارصدیقی

ہمارے ملک پر کم و بیش ایک ہزار سال مسلمانوں کی حکومت رہی،اس کے بعد ڈیڑھ سو سال انگریز حکمراں رہے۔اس پوری مدت میں سرکاری زبان غیر ہندی رہی،مسلمانوں کے دور میں فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی،برٹش دور حکومت میں حکمرانوں کی زبان اگرچہ انگریزی تھی لیکن دفتری زبان فارسی اور ...

غزہ: پروپیگنڈے سے پرے کچھ اور بھی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔ از: اعظم شہاب

غزہ و اسرائیل جنگ کی وہی خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں جو سامراجی میڈیا ہم تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ خبریں عام طورپر اسرائیلی فوج کی بمباریوں اور غزہ میں جان و مال کی تباہیوں پرمبنی ہوتی ہیں۔ چونکہ جنگ جیتنے کا ایک اصول فریقِ مخالف کو اعصابی طور پر کمزور کرنا بھی ہوتا ہے، اس لیے اس طرح ...

جب توپ ہوسامنے توکیمرہ نکالو۔۔۔۔۔۔از:مدثراحمد،شیموگہ، کرناٹک

جب بھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور مسلمانوںپر ظلم ہوتاہے،مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے ہیں،مسلمانوں کو بدنام کیاجاتاہے،ایسے وقت میں میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنےاور مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا،مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالموں کے ...

بھٹکل کے ممتاز لیڈر عنایت اللہ شاہ بندری نے جے ڈی ایس کو کہاخیرباد؛ کیا ہے ان کا اگلا منصوبہ ؟

لوک سبھا انتخابات سے قبل کرناٹک میں بی جے پی اور جے ڈی ایس اتحاد پر مہر لگنے کی خبروں کے بعد 28 سال سے بھی زائد عرصہ سے جنتاپریوار کا حصہ بنے رہنے والے بھٹکل کے معروف لیڈرعنایت اللہ شابندری نے جے ڈی ایس کو خیرباد کردیا ہے۔ عنایت اللہ شاہ بندری نے بتایا کہ بی جے پی سے اتحاد کرنے کے ...