مودی جی کورونا کی جنگ کیوں ہار گئے؟۔۔۔۔ از: اعظم شہاب

Source: S.O. News Service | Published on 8th June 2020, 12:22 PM | اسپیشل رپورٹس |

عام ہندوستانی بہت جلد غمگین بھی ہوجاتا ہے اور فوراً خوش بھی۔ کورونا کے آتے ہی ہم لوگوں نے صبح سے شام تک ایک دن کا جنتا کرفیو منایا اور تالی و تھالی بجا کر یہ سمجھ لیا کہ کورونا کو دفع کردیا گیا۔ رام داس اٹھاولے نے تو کورونا گو کا نعرہ لگا کر اپنی ویڈیو بناکر دنیا بھر میں اپنا اور ملک کا نام روشن کردیا۔ خیر ایک چھوڑ چار چار لاک ڈاؤن نے عوام کو کسی حد تک سنجیدہ تو کیا ہے مگر پھر لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہوتے ہی لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا ہے کہ اب تو کورونا کا انتم سنسکار ہوگیا ہے اور اس عفریت کو موت کی نیند سلایا جاچکا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے اس لیے کہ روز بروز کورونا کے متاثرین میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہی حالت دنیا بھر میں ہے۔ کورونا متاثرین کی تعداد 70 لاکھ  ہو گئی ہے اور مرنے والوں کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یوروپ میں برطانیہ کے علاوہ دیگر ممالک کے اندر مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن باقی دنیا کا حال خراب ہے۔

دنیا میں صرف 7 ممالک ایسے تھے جن میں مکمل لاک ڈاؤن لگایا گیا، ان میں سے ایک ہندوستان تھا۔ لیکن یہی ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں لاک ڈاؤن کے خاتمہ پر بھی مریض بڑھ رہے ہیں، جبکہ بقیہ دیگر ممالک میں کمی دیکھی گئی ہے۔ فی الحال ہندوستان متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں مقام پر پہنچ گیا ہے اور7 جون تک کورونا متاثرین کی تعداد 2.45 لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے سب سے زیادہ 9360 نئے معاملوں کے ساتھ متاثرین کی جملہ تعداد 245461 ہوگئی ہے۔

کورونا سے مقابلہ کی مہابھارت جیتنے کے لیے مودی جی نے 21 دن کا وقت مانگا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کے لیے 60 مہینے کی مدت مانگی تھی۔ 60 کے بجائے 72 مہینے گزر گئے اور ہندوستان لوہے کی چڑیا سے مٹی کی گڑیا بن گئی۔ ہندوستانی معیشت نے پوری طرح دم توڑ دیا اور اب اس کی ارتھی اٹھانا اور چتا جلانی باقی بچی ہے۔ بی جے پی کی نااہلی کے سبب یہ تو ہونا ہی تھا۔ لیکن کورونا نے اس کی سرعت میں اضافہ کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ مودی جی کو ایک بہانہ مل گیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ قومی انتخاب میں زبردست کامیابی حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سال کے اندر کورونا کی جنگ اتنی بری طرح کیوں ہار گئی؟ یہ سوال بی جے پی کے دشمنوں کے علاوہ دوستوں کو بھی تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

اس سوال کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ مودی جی نے کورونا کو بھی کانگریس سمجھ لیا۔ حالانکہ ان دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یعنی ایک بی جے پی کے لیے زمینی بلا اور دوسری عالم انسانیت کی خاطر آسمانی آفت ہے۔ پچھلے قومی انتخاب کی مہم میں راہل گاندھی نے رافیل کے حملوں سے اپنے مخالف نریندر مودی کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ سپریم کورٹ میں بین بین فیصلوں کے باوجود چہار جانب چوکیدار چور ہے کا شور بپا تھا۔ رام دیو بابا جیسا مودی بھکت بھی راہل کی تعریف کرنے لگا تھا اور ایک انٹرویو میں اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ راہل کی جیت اور مودی کی ہار بھی ہوسکتی ہے۔ آرایس ایس سے بی جے پی میں آنے والے رام مادھو نے انتخاب کے آخری مراحل میں یہ تک تسلیم کیا تھا شمالی ہندوستان میں بی جے پی کو نقصان اٹھنا پڑے گا اور اکثریت کے لیے حلیفوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہی رائے سبرامنیم سوامی کی بھی تھی۔ انہوں نے9 مئی 2019 کو یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی کو اگر 230 نشستیں نہیں ملیں تووزیر اعظم مودی کا دوبارہ وزیر اعظم بننا مشکل ہوگا اور نتن گڈکری اچھے متبادل ہوں۔ لیکن ان ساری قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر کے بی جے پی نے زبردست کامیابی درج کرائی۔

اس کامیابی کے حصول کی خاطر بی جے پی نے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اسی کے مطابق کورونا سے لڑنے کی کوشش کی۔ عوام کو توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے پلوامہ کا بہانہ بناکر ائیر اسٹرائیک کی کہانی گھڑی گئی اور پاکستان کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا کر انہیں احمق بنایا گیا۔ ہندوستان کے رائے دہندگان تو بیوقوف بن گئے لیکن کورونا نہیں بنا۔ کورونا کے خلاف بھی ائیر اسٹرائیک کی مانند علامتی تماشے کیے گئے۔ تالی، تھالی، دیا بتی اور پھول وغیرہ۔ کورونا کے معاملے میں اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے تبلیغی جماعت کے نام پر عوام کو بہکایا گیا لیکن کورونا بڑھتا ہی چلا گیا۔

معاشی پیکیج کا ڈرامہ کیا گیا وہ بھی کسی کام نہیں آیا۔ عوام کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی کیونکہ سارا آپریشن وزیر اعظم کے دفتر سے چل رہا تھا۔ آئی ٹی سیل نت نئے شوشے چھیڑتا اور میڈیا اس کو سماج میں پھیلاتا، لیکن کورونا کا جراثیم ان افواہوں سے بے نیاز اپنا کام کرتا جا رہا تھا۔ اس وقت راہل گاندھی نے مشورہ دیا تھا کہ یہ جنگ پی ایم او سے نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کے لیے وزرائے اعلیٰ اور ضلعی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے میں مودی جی کو70 دن لگ گئے، لیکن تب تک معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور ہندوستان پچاسویں مقام سے پانچویں مقام پر پہنچ گیا۔ مودی جی کی حماقت کی قیمت پوری قوم نے چکائی۔ کاش کے وہ اس بات کو شروع میں ہی سمجھ لیتے تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...