مسلم مخالف قانون سے ہندو ناراض کیوں؟۔۔۔۔ از:معصوم مرادآبادی

Source: S.O. News Service | Published on 15th December 2019, 10:35 PM | اسپیشل رپورٹس |

پرانی کہاوت ہے کہ جو دوسروں کے لئے گڈھا کھودتا ہے‘ وہ سب سے پہلے خود ہی اس میں گرتا ہے ۔ہم برسوں سے یہ کہاوت سنتے چلے آرہے تھے‘ لیکن کبھی اس کا عینی مشاہدہ کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔وزیر داخلہ امت شاہ اور ان کی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کا جو گڈھا مسلمانوں کے لئے کھودا تھا‘ اس میں وہ خود ہی گرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔عام خیال یہ تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کی سب سے زیادہ مخالفت مسلمان ہی کریں گے چونکہ انہیں جان بوجھ کر اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے ۔در حقیقت اس قانون کی سب سے زیادہ آنچ مسلمانوں کو ہی محسوس ہوئی ہے اور انہیں پہلی مرتبہ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہونے کا احساس ستا رہا ہے۔یوں تو گذشتہ جمعہ کو پورے ہندوستان میں مسلمانوں نے نماز جمعہ کے بعد اس قانون کے خلاف زبردست احتجاج درج کرایا ہے لیکن اس سے قبل گذشتہ دو روز سے شمال مشرقی ریاستوں میں اس قانون کے خلاف جو شدید رد عمل دیکھنے کوملا ہے‘ وہ یقینا مسلمانوں کے احتجاج سے کئی گنا زیادہ ہے ۔شمال مشرقی ریاستوں کے با شندوں نے اس قانون کے خلاف ایسا طوفان برپا کیا ہے کہ حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں ۔آنسو گیس ‘ فائرنگ اور کرفیو جیسے اقدامات بھی اس عوامی سیلاب کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف امڈتا ہی چلا جارہا ہے۔مشتعل مظاہرین کو قابو میں کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔حکومت ان کی خوشامد میں لگی ہوئی ہے کہ وہ احتجاج کا راستہ چھوڑ کر گفتگو کی میز پر آجائیں لیکن وہ شہریت ترمیمی قانون کو رد کرنے سے کم پر راضی نہیں ہیں۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد شہریت ترمیمی بل صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانونی شکل اختیار کرچکا ہے‘ لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر اس قانون کا نفاذ کہاں اور کیسے ہوگا ۔مغربی بنگال ،کیرل اور پنجاب جیسی ریاستیں اپنے یہاں اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہیں اور انڈین یونین مسلم لیگ نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس ریاست کے باشندوں کو این آر سی کے عذاب سے بچانے کے لئے اس قانون کو وجود میں لایا گیا ہے‘ اسی ریاست کے با شندے اس قانون کے خلاف شمشیر بے نیام ہو کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ہماری مرادبی جے پی کے اقتدار والی ریاست آسام سے ہے‘ جہاں اس قانون کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہورہا ہے ۔احتجاج کی لَو اتنی شدید ہے کہ سرکاری مشینری گھٹنوں پر آگئی ہے۔ صوبے کا نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیا ہے ۔نقل وحمل کے تمام ذرائع ٹھپ ہیں ۔ساری شا ہرائیں احتجاج کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں ۔آرایس ایس اور بی جے پی کے وہ لیڈران جنہوں نے آسام میں غیر ملکی دراندازوں کو مسئلہ اٹھا کر این آر سی کو نافذ کرایا تھا‘ وہ فی الحال رو پوش ہیں کیونکہ ان کی جان پر بن آئی ہے ۔واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا بنیادی مقصد پڑوسی ملکوں سے آنے والے ہندوئوں کو ہندوستانی شہریت کے حصول میں آسانیاں فراہم کرنا تھا ۔ اس قانون سے مسلمانوں کو اس لئے دور رکھا گیا کہ کہیں کسی پڑوسی ملک کے مسلم پناہ گزین کو غلطی سے بھی ہندوستانی شہریت نہ مل جائے ۔وزیر داخلہ امت شاہ نے بے شرمی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے لوک سبھا میں کہا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو مسلم پناہ گزینوں کا مرکز بنادیا جائے ۔آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ہندوئوں کی آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔آبادی کے عدم توازن کو دور کرنے کے لئے پڑوسی ملکوں سے ہندوئوں کو یہاں لاکر بسایا جائے گا ۔‘‘ہمیں وزیر داخلہ کے اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ ان کی تربیت جس سیاسی ماحول میں ہوئی ہے وہاں اسی قسم کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاتا ہے ۔شہریت ترمیمی قانون کو لانے کے مقاصد شروع میں ہی واضح ہوگئے تھے اور عوام کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ ملک کے سیکولر دستور میں فرقہ واریت کا انجکشن لگایا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام سیکولر اور وطن دوست عناصر نے اس کی شدید مخالفت کی لیکن حکومت نے کسی کی نہیں سنی اور حاکمانہ غرور کے نشے میں ایک دستور مخالف قانون کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کراکے اس پر صدر جمہوریہ کی مہر لگوا لی۔

یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب یہ قانون مسلمانوں کو شہریت سے محروم رکھنے اور ہندوئوں کو بغیر کسی دستاویز کے شہریت فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے تو پھر شمال مشرقی ریاستوں کے ہندو اس قانون کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر کیوں اتر آئے ہیں ۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے آپ کو ہندوستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی ،لسانی اور تہذیبی شناختوں پر نظر ڈالنی ہوگی ۔دراصل اس ملک کے مختلف صوبوں کے باشندوں کو اپنی زبان ،تہذیب اور علاقائی شناخت سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ اس معاملے میں مذہب کو بھی دور رکھتے ہیں۔ حکمراں بی جے پی کا خیال ہے کہ وہ ملک کے عوام کو ہندوتو کی ڈور میں پرو کر ان تمام اختلافات اور تضادات کو ختم کردے گی جو اس ملک کے با شندوں کو اپنے مذہب سے زیادہ عزیز ہیں۔لیکن مودی سرکار کا خیال بالکل غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ شمال مشرقی ریاستوں آسام ،تری پورہ ،منی پور ،میگھالیہ ،میزورم اور ارونا چل پردیش کے با شندوں نے اس قانون کے خلاف ایسا محاذ کھول دیا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو دن میں تارے نظر آنے لگے ہیں ۔در حقیقت ان صوبوں کے اصلی با شندوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کے بنگالی ہندو ان کے علاقوں میں بری طرح چھا جائیں گے ۔یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں یہاں آچکے ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔حالت یہ ہے کہ وہ لوگ شمال مشرقی صوبوں کے کئی شہروں میںاکثریت میں آگئے ہیں جس کی وجہ سے ان صوبوں کے وہ باشندے جو صدیوں سے یہاں رہتے چلے آئے ہیں انہیں اقلیت میں آجانے اور علاقائی شناخت چھن جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ شمال مشرقی صوبوں کے باشندوں کے دل ودماغ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہے کہ نئے شہریت ترمیمی قانون میں پڑوسی ملکوں کے مسلمانوں کو پناہ دینے کا التزام نہیں ہے۔جن صوبوں میں بی جے پی بر سراقتدار ہے‘ وہاں بھی شہروں اور گاوئوں میں ہزاروں افراد اس قانون کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔جس سے حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں ۔احتجاجی تحریک کے دوران آسام کے وزیراعلیٰ اور ان کے کابینی رفقا اور بی جے پی لیڈروں کے گھروں پر ہی حملے نہیں ہوئے ہیں بلکہ آرایس ایس کے دفتروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ہزاروںلوگوں کی بھیڑ توڑ پھوڑ اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔صورتحال کو قابو میں کرنے کے لئے ہزاروں فوجی جوان تعینات کئے گئے ہیں ۔کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔آسام میں تین دہائیوں کے بعد اتنی بڑی تحریک نے جنم لیا ہے ۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ بی جے پی جس نے بڑی مشکل سے شمال مشرقی صوبوں میں اپنی جڑیں قائم کی ہیں‘ اس تحریک کے بعد وہاں سے اس کا پوری طرح صفایا ہو سکتا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قانون نے جہاں ایک طرف شمال مشرقی ریاستوں کے ہندوئوں کو ناراض کیا ہے تو وہیںتمل آبادی بھی شدید غصے میںہے ۔سری لنکا سے جو تمل اور مسلمان ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں‘ ان کے بارے میں یہ قانون بالکل خاموش ہے۔ظاہر ہے جو دلیل بنگلہ دیش ،پاکستان اور افغانستان کے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنے کے حق میں دی جارہی ہے،اسی دلیل سے نیپال ،سری لنکا اور میا نمار کے پناہ گزینوں کو بھی ہندوستانی شہریت ملنی چاہئے۔

اس قانون کا ایک اور تاریک پہلو یہ ہے کہ اس نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کردیئے ہیں ۔بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے حالیہ ہندوستانی دورے کو رد کردیا گیا ہے ۔بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کے حوالے سے کئی قابل ا عتراض باتیں کہی تھیں ۔انہوں نے وزیر داخلہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھید بھائو نہیں ہوتا ہے اور سرکاری دفتروں میں تمام مذاہب کے لوگ موجود ہیں ۔‘‘آسام میں صورتحال کی ابتری کو دیکھتے ہوئے اتوار کو جاپانی وزیر اعظم شنزے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان گوہاٹی میں ہونے والی ملاقات منسوخ کردی گئی ہے ۔ادھر امریکہ میں مذہبی آزادی کے سب سے بڑے ادارے نے شہریت ترمیمی قانون کی سخت مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ کے امریکی سفر پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔یہ وہی ادارہ ہے جس نے بطور وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگوائی تھی ۔اس قانون کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے آسام میں پناہ گزین جن بنگلہ دیشی ہندوئوں کو شہریت دلانے کے لئے یہ قانون بنوایا تھا‘ وہی بنگلہ دیشی اب اس کے لئے سب سے بڑا دردسر بن گئے ہیں ۔ آسام میں جن 19لاکھ پناہ گزینوں کو این آر سی کی حتمی فہرست سے خارج کیا گیا ہے ان میں 13لاکھ ہندو ہیں اور ان ہی لوگوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنے اور مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لئے یہ قانون پاس کروایا گیا ہے ۔لیکن مرکزی حکومت کا یہ دائوں پوری طرح ناکام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ پانسہ پوری طرح پلٹ چکا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...