قاسم سلیمانی نے عراق میں امریکی سفیرزلمے خلیل زاد کو قتل کی دھمکی کیوں دی تھی؟ ایران عراق میں کیا کھیل کھیلنا چاہتا تھا ؟
ریاض،19جنوری(آئی این ایس انڈیا)امریکی سفیر زلمے خلیل زاد عراق اور افغانستان کے امور سے متعلق گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔ عراق کے حوالے سے ان کے تجربات کے حوالے سے کئی ایسے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں ایران میں عراق کی کھلی مداخلت کا پتا چلتا ہے۔ زلمے خلیل زاد کو عراق میں ایرانی منصوبوں اور عزائم کا اس وقت پتا چل گیا تھا جب وہ بیرون ملک عراقی جنہیں ’آزادی پسند عراقی‘ کہا جاتا تھا کے لیے مندوب کاکام کررہے تھے۔ اس کے بعد انہیں عراق میں امریکی سفیر کے طورپرخدمات انجام دیتے ہوئے بھی ایرانی مداخلت کا تجربہ ہوا۔
افغان نژاد زلمے خلیل زاد نے سنہ 2017ء کو اپنے سفارتی تجربات پرمشتمل ایک کتاب شائع کی۔’کابل سے وائٹ ہاؤس تک ہنگامہ خیز دنیا میں سفارت کاری’کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں انہوں نے عراق میں ایرانی مداخلت کا پردہ چاک کیا ہے۔اس کتاب میں خلیل زاد نے عراق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ایرانی منصوبوں کے بارے میں دلچسپ معلومات کا انکشاف کیا۔ انہوں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح ایران کی وفادار عراقی شیعہ جماعتوں نے عراق میں زور پکڑا اور ریاست کو اپنے ہاتھوں میں یرغمال بنایا۔ اس کتاب میں قاسم سلیمانی کا دہشت گردی کی دنیا میں ایک مشہور شخصیت بننے سے قبل ابتدائی دور کا ذکر موجود ہے۔کتاب سے پتا چلتا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور قاسم سلیمانی کے درمیان بالواسطہ رابطہ صدام کا تختہ الٹے جانے کے بعد پہلے کرد عراقی صدر جلال طالبانی کے توسط سے ہوا۔ اس وقت سلیمانی کی طرف سے زلمے خلیل زاد کو دھمکی آمیز پیغام دیا گیا تھا۔
زلمے اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ تہران اس تشدد کا مخالف نہیں تھا جو شیعہ عربوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے تھے۔ امریکی سفیر نے عراق میں شیعہ فرقہ وارانہ ملیشیاؤں اور اسی طرح القاعدہ کی حمایت کرنے میں ایران کے کردار کے بارے میں اپنی کتاب میں وضاحت کی ہے کہ عراق کے شیعہ گروپ ملک میں ہرحال میں سنی عربوں کو کچل کر اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عراق ایک بار پھر سنی مسلک کیلوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے۔