ٹوئٹر ’بند ہو جانے‘ کا خوف، صحافی کیوں سب سے زیادہ پریشان؟
لندن،24؍نومبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) اگر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نہ رہی تو شاید عام لوگ اتنے متاثر نہیں ہوں گے جتنے کہ صحافی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ویب پلیٹ فارم ان کے لیے خبریں حاصل کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جب سے ارب پتی ایلون مسک نے ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھالا اور پھر عملے کو برطرف کرنا شروع کیا تب سے ہی قیاس آ رائیاں کی جا رہی ہیں کہ پلیٹ فارم جلد بند ہو جائے گا۔
روئٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دا سٹڈی آف جرنلزم سے منسلک صحافی نک نیومین کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر صحافی (ٹوئٹر) نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دراصل ان کے کام کا ایک اہم حصہ ہے۔نک نیومین برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے جب 2008 اور 2009 میں ٹوئٹر کی مقبولیت بڑھی۔انہوں نے کہا کہ ’یہ لوگوں سے رابطے کا ایک نیا طریقہ تھا جو کیس سٹڈیز کرنے اور ماہرین کے لیے لاجواب ذریعہ بنا۔
لیکن اس دوران ٹوئٹر بھی حریف بن گیا جس نے نیوز روم کی جگہ لے لی اور دہشت گردی کے حملوں، قدرتی آفات یا کسی بھی اہم ’بریکنگ نیوز‘ کو عوام تک پہنچایا۔نک نیومن نے کہا کہ ’صحافیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہمیشہ کی طرح خبریں پہنچانے کا ذریعہ اب صرف وہ ہی نہیں ہوں گے اور ان کا کردار مختلف ہو جائے گا یعنی خبر کو سیاق و سباق کے مطابق بنانا اور تصدیق کرنا۔
اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ صحافی سیاست دانوں اور مشہور شخصیات کے اعلانات سے بروقت آگاہ ہونے کے لیے اس پلیٹ فارم سے جڑے ہوئے تھے۔صحافیوں کی جانب سے خبروں کے لیے ٹوئٹر پر اس انحصار نے بہت سے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔نک نیومن سمجھتے ہیں کہ ٹوئٹر پر ہونے والی ’بحثیں زیادہ تر اشرافیہ کی بحثیں ہیں، یہ یقینی طور پر نیوز رومز میں ایک مسئلہ رہا ہے۔