’ وشوگرو‘ کسے کہاگیا ؟ : عوامی تحریکات کو غلط رخ دینے والے ’آندولن جیوی‘ کون ہیں ؟ معروف کنڑا روزنامہ پرجاوانی کی خصوصی رپورٹ
بھٹکل20؍فروری (ایس اؤ نیوز) ریاست کے مشہور و معروف کنڑا روزنامہ ’’پرجاوانی ‘‘ میں کالم نگار وائی جی جگدیش نے ہفتہ واری کالم ’پسِ سایہ ‘ (گَتِی بمب)میں ’’وشوگرو ،ہیلِدّو یاریگے ‘‘ (وشو گرو کسے کہا گیا)کے عنوان پر موجودہ کسان تحریک اور کرناٹک میں ریزرویشن کی جدوجہد پرروشنی ڈالی ہے۔ ساحل آن لائن کے قارئین کے لئے اس کاترجمہ یہاں پیش کیا جارہاہے۔
ڈیم کے دائیں اور بائیں کناروں پر بسے لوگ پانی کا حصہ مانگ سکتے ہیں لیکن یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آخری سرے تک پر موجود لوگوں کو پانی ملے گا یا نہیں ۔ ہاں ،ڈیم کے دونوں کنارے والوں کو پانی کی کوئی قلت نہیں ہوگی۔
سرکاری دفاتر میں خدمات انجام دینےو الے نچلی سطح کا سکیورٹی عملہ ، معاونین ، ڈی ٹی پی آپریٹروغیرہ کے عہدے کانٹراکٹ پر دئیے جاچکے ہیں۔ جیسے جیسے خانگیانہ میں اضافہ ہوگا اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں کمی ہوگی، جو عہدے خالی ہیں ان پر کوئی تقرری بھی نہیں ہورہی ہے ۔ انہی حالات کے دوران کرناٹک میں ریزویشن کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
کرناٹک کی بات کریں تویہاں بی جےپی کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی ۔ ہبلی عیدگاہ میدان اور چک منگلورو کے بابابڈھن گری جیسے تنازعوں کے سہارے بی جے پی یہاں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ہے، گائے ذبیحہ کا معاملہ چھیڑ کر اور فرقہ وارانہ نفرت بو کر بی جے پی نے ساحلی پٹی پراپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ اڈوانی کی رتھ یاترا اور عیدگاہ تنازعہ کو لے کر پرہلاد جوشی اور اننت کمار ہیگڈے کی جدوجہد، بابابڈھن گری تنازعہ کو لے کر سی ٹی روی کی جدوجہد، نلین کمار کٹیل کی فرقہ وارانہ سیاست ، یہ سب عوامی تکالیف و پریشانیوں کی خاطر ہونے والی جدوجہد نہیں ہے۔ دراصل اپنی پریشانیوں کولے کرجدوجہد کرنے والے عوام کو مذہبی فرقہ وارایت کا نشہ پلا کرغلط رخ پر لےجانے والی جدوجہد تھی۔ یعنی عوامی جذبات کے سہارےاقتدار حاصل کرنا ہی آندولن جیوییوں کی تہذیب ہے۔ |
ریزرویشن کا مطالبہ کوئی غلط نہیں ہے؛ کروبا، لنگائیت پنچم سالی ، دیوانگ، اوپار ، مادیگا سمیت مزدور طبقات کی ریزرویشن کے حق کو لےکر کی جانے والی مانگ انصاف پر مبنی ہے۔مگر جب روزگار کے دروازے ایک ایک کرکے بند کئے جارہے ہیں تو پھر ریزرویشن کا کیا مطلب ؟ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے پیاسا،جس سے پانی مانگ رہاہےاس کے پاس پانی ہی نہیں ۔
سیاسی طورپر کافی مضبوط ومستحکم لنگائیت پنچم سالی اور کروبا طبقے اس وقت ریزرویشن کو لے کر سڑک پر ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی سرکار میں جو وزیر یا ارکان اسمبلی نہیں ہیں انہی کی لیڈرشپ میں یہ جدوجہد جاری ہے۔ جو حکومت کے حصہ دار ہیں وہ آخر کس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں ؟ ان دونوں طبقات کی سرگرمیوں نے ایک نئی بحث کی شروعات کی ہے۔ ریاست کی دو اہم سیاسی شخصیات کی طاقت کو جھٹکا دینے کے لئے آر ایس ایس کے پروردہ ،بی جےپی کے کلیدی عہدوں پر فائز چند اہم لیڈران نے ہی ریزرویشن کی تحریکات کا بگل بجائے جانے کی بات کہی جارہی ہے۔
اس جدوجہد کا اصل راز یہ بتایا جارہا ہے کہ لنگائیت طبقے کے بے تاج بادشاہ کہلانے والے بی ایس یڈیورپا کی شہرت کو ماندکرکے متبادل قیادت کی موجودگی کااحساس اجاگرکیا جائے۔ایک تجزیہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ یڈیورپا اپنی لیڈر شپ اپنے بیٹے وجئیندرا کو منتقل کرنے والی ’راج شاہی ‘روایت کے خلاف ریزرویشن کا پانسہ پھینکا گیا ہے۔ یڈیورپا کے ساتھ رہنے والے غیر پنچم سالی لنگائیت لیڈران کے بیانات بھی اسی کی طرف اشارہ کرتےہیں۔
کانگریس پارٹی کے دگج لیڈر سدرامیا پر ان کا اپنا کروبا طبقہ کافی اعتماد کرتاہے ،ایک بحث یوں بھی جارہی ہے کہ کروبا ریزرویشن کی جدوجہدکے پس پردہ بی جے پی کی یہی منطق ہے کہ اس کو ووٹ بینک میں منتقل کیاجائے۔
ریاستی وزیر کے ایس ایشورپا نے بیان دیاہے کہ ’سدرامیا کو یہ فکر ستارہی ہے کہ اگر میرے 60لاکھ کروبا طبقے کے ریزرویشن مطالبے کو منظور کرلیا گیا تو اگلے انتخابات میں ان کا اپنا طبقہ بی جے پی کو ووٹ دے سکتاہے‘۔اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ریزرویشن تحریکات کی پیش قدمی کے دوران ہی ’وشو گرو‘ کی طرح منہ میاں مٹھو بنے وزیر اعظم نریندر مودی نے ’آندولن جیوی ‘(تحریک کار) کا لفظ کیا پھینکا کہ کئی تحریکیں تنازعہ کا شکار ہوگئیں۔ایوانِ بالا (راجیا سبھا ) میں خطاب کرتےہوئے مودی نے یہ کہہ کر مذاق اُڑایا کہ ’’ملک میں’ آندولن جیوی ‘نامی نئی نسل پیدا ہوئی ہے، ایسے پیشہ ور جہدکار ہر احتجا ج میں نظر آئیں گے۔ ایسے طفیلیوں یا مفت خوروں کے لئے احتجاج ایک تہوار کی مانند ہوتاہے‘‘
ملک کو اناج دینے والے کسان پچھلے تین مہینوں سے عمر، سردی ، گرمی ، دھوپ اور ان سب کے سوا پورا سال گھر میں ہی گھنٹہ مارتے بیٹھنےپر مجبور کرنےو الی وباء کورونا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئےہیں۔ کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے ذمہ دار ’چوکیدار‘ نے ملک کے باشندوں کو صرف ایک لفظ کے ذریعے کنارے لگانے کی کوشش ، تاریخی ظلم ہے۔ اپنے معاونین کے طورپر خیال کرنے والے مودی ابھی تک ٹرمپ کے حمایتیوں کی غنڈہ گردی کرنےکے بعد بھی انہیں وشو گروکا نہ طعنہ دیا اور نہ ہی انہیں ا ن کی سخت مذمت کرتے دیکھاگیا۔
ایک مبینہ ’سازش ‘ رچنے کے مبینہ الزام میں جیل بھیجے گئے تیلگو شاعر ورورراؤ کی تحریر’’جرم ، حاکم بن کر عوام کو مجرموں کی طرح شکار کرتاہے تو منہ میں زبان رکھتے ہوئے خاموش رہنے والا بھی مجرم ہی ہوتاہے ‘‘ کو یا دکریں تو وہ جرم ہو ہی نہیں سکتا۔
وزیرا عظم جیسے اعلیٰ عہدے پر رہنےو الے ’’ آندولن جیوی ‘‘ کے طورپر کس کو خطاب کیا ہے بحث طلب تو ہے۔لیکن جب مرکزی حکومت منڈل رپورٹ نافذ کرنے کی تیاری میں تھی تو ’آندولن ‘ کے لئے اعلیٰ ذات والوں کو کس کی حمایت میں مشتعل کیاگیا تھایہ انہی کو بولنا چاہئے جو اس وقت ریزرویشن کے لئے عوام کو سڑکو ں پر لائے ہیں۔
بی جےپی کے لیڈران ایل کے اڈوانی اور بی ایس یڈیورپاکی پوری زندگی جدوجہد میں گزری ہے، رام جنم بھومی کے لئے اینٹ، چراغ، پادوکے ایسےدو دہوں تک کتنےہی یاتراؤں کے ذریعے بی جےپی کو قومی سطح پر بنیاداڈوانی نے ہی فراہم کی تھی ۔یڈیورپا بھی زندگی بھر کسانوں کے لئے کئی ایک پیدل یاترائیں کرنے کے بعد اپنی ڈھلتی عمر میں اقتدارپر فائز ہوئے ہیں۔
کرناٹک کی بات کریں تویہاں بی جےپی کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی ۔ ہبلی عیدگاہ میدان اور چک منگلورو کے بابابڈھن گری جیسے تنازعوں کے سہارے بی جے پی یہاں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ہے، گائے ذبیحہ کا معاملہ چھیڑ کر اور فرقہ وارانہ نفرت بو کر بی جے پی نے ساحلی پٹی پراپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔
اڈوانی کی رتھ یاترا اور عیدگاہ تنازعہ کو لے کر پرہلاد جوشی اور اننت کمار ہیگڈے کی جدوجہد، بابابڈھن گری تنازعہ کو لے کر سی ٹی روی کی جدوجہد، نلین کمار کٹیل کی فرقہ وارانہ سیاست ، یہ سب عوامی تکالیف و پریشانیوں کی خاطر ہونے والی جدوجہد نہیں ہے۔ دراصل اپنی پریشانیوں کولے کرجدوجہد کرنے والے عوام کو مذہبی فرقہ وارایت کا نشہ پلا کرغلط رخ پر لےجانے والی جدوجہد تھی۔ یعنی عوامی جذبات کے سہارےاقتدار حاصل کرنا ہی آندولن جیوییوں کی تہذیب ہے۔
کانگریس ، بی جے پی ، کمیونسٹ یا پھر کسی پارٹی کی بھی حکومت ہو، یہ سب عوامی جدوجہد کو کبھی برداشت نہیں کرتے ، معاشی بدحالی، بے روزگاری ، زرعی پیداوارکی کوئی قیمت نہیں ، جب روزمرہ کی زندگی جہنم بن جاتی ہے تو عوام کے دلوں میں جدوجہد کی چنگاری خود بخود سلگتی ہے۔انہی جذبات کو دھرم اور ذات کا نشہ پلا کر عوام کو مخمور کرکے غلط رخ پر لے جانا ہر زمانے کے حکام کے ہتھیار رہے ہیں۔
غالباًمودی سوچ رہےتھے کہ کسانوں کی جدوجہد بس کچھ دنوں کی بات ہوگی۔ کسی کی پرواہ کئے بغیر عالمی توجہ کا مرکز بنے کسان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی نے ان کا مذاق اڑانے کا راستہ ڈھونڈلیا ہوگا؟
کنڑا کلاسیک شاعر کمار ویاس ’’سبھا پروا‘‘ میں ناردا سے یدھیشٹر کی زبانی کہتاہے کہ ملک کےلئے کھیتی اور زراعت بہت ہی اہم ہوتی ہے۔ ملک کےحکمرانوں کو چاہئےکہ وہ کسانوں کےلئے بہتر سہولیات فراہم کریں ، زراعت اورکھیتی کے بغیر ملک کچھ نہیں ہے۔ اب ملک گیری کرنےو الے دھرم راجوں کو کون سمجھائے ؟