ہر بڑے انتخاب میں حکمراں پارٹی کی غیر نتیجہ خیز کارکردگی کے خلاف(اینٹی انکمبینسی)لہر چل پڑتی ہے۔ گزشتہ مرتبہ الیکشن کے دوران بھی یو پی اے حکومت کی شکست اور بی جے پی کے برسراقتدار آنے کی وجوہات میں ایک وجہ اس لہر کو بھی مانا جارہا تھا۔ اس مرتبہ مودی کی حکومت نے ملک کے عام آدمی کی زندگی میں کوئی جنت جیسی چیز تو لاکر نہیں رکھ دی تھی۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے دیش کی معیشت کی جڑوں پر ہی کاری ضرب نہیں لگائی تھی بلکہ یہ تو بہت بڑے گھوٹالے(اسکیام)ثابت ہوئے تھے۔بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہواتھا۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔ ریفیل گھوٹالہ میڈیاکے صفحہ اول کی زینت بنا ہواتھا۔ اگر عوامی زندگی میں آنے والی تبدیلیاں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اسے عوامی طاقت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ اس مرتبہ کے انتخابات پر بھی حکومت کی ناکامی کے اثرات کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دے گا۔مگر ایسے تمام اندازوں کو خاک میں ملاتے ہوئے مودی کی قیادت والی بی جے پی نے دوبارہ بڑی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس اکثریتی جیت کا احترام کرتے ہوئے حزب مخالف اور سیکیولرازم کے حامیوں کوچاہیے کہ وہ خود اپنا احتساب کریں۔ ا ن نتائج کے جو اثرات مستقبل میں عوامی طاقت پر ہونے والے ہیں، اگران کا مقابلہ کرنے کے لئے ابھی سے تیاریاں نہیں کی گئیں تو آنے والے دنوں میں ملک کے اندر انتخابات ہی منعقد نہ کرنے کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔اسی لئے یہ انتخابی نتائج سیکیولر ذہنیت رکھنے والوں کو اپنی تمام تر قوت یکجا کرتے ہوئے متحدہ طور پر ملک کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کاسبب بن جانا چاہیے۔
صرف ای وی ایم کی گڑ بڑی نہیں ہے: اس مرتبہ کے نتائج کو سیاسی پارٹیاں ای وی ایم مشین کے سر پر ڈالتے ہوئے ندامت سے بچنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ ای وی ایم میں گڑبڑی نہیں ہوئی ہوگی، ایسا بھی نہیں ہے۔کئی مقامات پر مشینوں میں گڑبڑی کے واقعات اخبارات میں سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن صرف ای وی ایم میں گڑ بڑی کرکے بی جے پی کے لئے اس پیمانے پر کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔باقی جہاں تک انکم ٹیکس محکمہ کو افسران کا انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کرنے، میڈیا کو پوری طرح اپنے اشتہاری پرچوں میں تبدیل کرنے، الیکشن کمیشن کو اپنی جیب میں رکھ لینے، محکمہ پولیس کے علاوہ دیگر محکمہ جات اور اداروں کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے استعمال کرنے سے اس مرتبہ کے انتخابی نتائج پر اس کے اثرات کی بات ہے، تو یہ جھوٹ بھی نہیں ہے۔ان انتخابات میں دیش کی ترقی کو ایک کنارے لگادیا گیا۔ فوج، پاکستان، بالا کوٹ، پلوامہ جیسے الفاظ کا جاپ کرتے ہوئے نریندرا مودی نے دیش بھر میں انتخابی مہم چلائی۔ اور اسی وجہ سے بڑی بھاری مقدار میں ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ لانے میں کامیاب ہوگئے۔ میڈیااور کارپوریٹ طاقتوں نے نریندرامودی کا جو نقلی تاثرقائم کیاتھا، رائے دہندگان اس مرتبہ بھی اس تاثر کی بلی چڑھ گئے۔یہ حقیقی معنوں میں ایک خطرناک صورتحال ہے۔آنے والے دنوں میں سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں ترقی کے بجائے جذباتی موضوعات ہی اہمیت حاصل کرسکتے ہیں۔
جمہوریت کی بربادی جمہوریت کے سہارے: انتخاب کے دوران گوڈسے کی دیش بھکتی پہلی مرتبہ بحث کا موضوع بن کر ابھری ہے۔ گوڈسے کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے بی جے پی کے لیڈروں نے اس مرتبہ انتخاب میں بہت ہی زیادہ ووٹوں کے فرق کے ساتھ جیت درج کی ہے۔اسی پس منظر میں سیاسی طور پر مین اسٹریم میں اپنی کوئی پہچان نہ رکھنے والی سناتن سنستھا کے اندر موجوو طاقتوں نے اس مرتبہ جمہوری نظام میں اپنے مونچھوں پر تاؤ دیتی نظر آئی ہیں۔ان طاقتوں کے لئے جمہوری نظام اور دستور ہی سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ ایک رواج ہے۔ درخت کو کاٹنے کے لئے جو کلہاڑی استعما ل ہوتی ہے اس کا دستہ درخت کی ٹہنی سے ہی بنایاجا تا ہے۔بالکل اسی طرح جمہوریت کو بربادکرنے کے لئے یہ طاقتیں جمہوریت کا ہی سہارا لے رہی ہیں۔ یہ انتخابی نتائج پیغام دے رہے ہیں کہ بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کے نرم ہندوتوا کے راستے سے ہوتے ہوئے مودی کے کٹر ہندوتوا کے موڑ پرپہنچی اور وہاں سے اب گوڈسے کے عسکریت پسندانہ ہندوتوا تک پہنچ گئی ہے۔ہندوستانی تاریخ کی اصلی روح کو ہٹاکر وہاں گولوالکراورگوڈسے کولاکر بٹھانے کی جو کوشش ہورہی تھی، اسے ان نتائج کی شکل میں پہلی بار کامیابی ملی ہے۔گاندھی جی کی اہنسا والی فلاسفی کو کنارے رکھ کر اس انتخاب نے گوڈسے کی ہنسا کو آگے لاکھڑا کیا ہے۔ان نتائج کو آئندہ دنوں میں دلتوں اور اقلیتوں پر ظلم وستم ڈھانے کے لئے اجازت نامے کے طور پر لیے جانے کے قوی امکانات موجود ہیں۔بھارت میں دھیرے دھیرے پروان چڑھنے والے دہشت گردی کے جال کو دنیا نے اب پہچان لیا ہے۔ اس لئے ان نتائج سے عالمی طور پربھارت کی امیج کو دھکا پہنچا ہے۔اس انتخاب نے کچھ حد تک نریندرا مودی کے غیرمعمولی ہونے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود اگر مودی کی جیت ہوتی ہے تو اس کے پیچھے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے پر تشدد ذہنیت کی انتھک محنت کا ہاتھ ہے۔
انتخابات کامطلب سمجھنا ہوگا: سیکیولر پارٹیوں کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی کارکنان کو پوری طرح تبدیل کروائیں۔ انہیں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انتخاب کا مطلب امیدوار کا اعلان ہونے کے بعد تشہیری مہم چلانا اور ووٹ ڈالنا نہیں ہے۔ بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں میں ایک بہت بڑا بنیادی فرق ہے۔ بی جے پی کے پاس کچھ مقررہ نظریات کو اپناکر جی جان سے رات دن محنت کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں۔ ملک بھر میں آر ایس ایس شاکھائیں موجود ہیں۔ دیہاتوں اور جنگلوں کو انہوں نے اپنے کام کے میدان بنالیا ہے۔ انتخابات منعقد ہورہے ہوں یا نہیں ہورہے ہوں، یہ لوگ اپنے اصولو ں کو مختلف طریقوں سے لوگوں تک پہنچانے کا کام روزانہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ آج آر ایس ایس صرف منو وادی نظریات پر عمل کروانے والی شاخوں تک محدود نہیں رہی ہے۔سیاسی طاقت حاصل کرکے فوج، محکمہ پولیس کے علاوہ بھاری آمدنی والے مختلف اہم عہدوں پر اپنے کارکنان کو داخل کرنے کا کام آر ایس ایس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سماجی خدمات کے ذریعے ہی نہیں بلکہ روحانی اور مذہبی پروگراموں کے ذریعے بھی وہ مسلسل عوامی رابطے میں رہتے ہیں۔یہ ساری چیزیں انتخاب کے موقع پربی جے پی کے لئے ووٹ کی شکل میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔اسی پس منظر میں سیکیولر اصول، اس دیش کی حقیقی تاریخ، امبیڈکر، اور نارائن گرو کی نظریات کواسی طرح منظم انداز میں پیش کرنے والی کوئی بھی تنظیم ہمارے پاس موجودنہیں ہے۔کانگریس کے پاس ’بھارت سیوادل‘نامی ایک شعبہ تو موجود ہے، لیکن کاہل کانگریسی لیڈران کی رکاوٹوں نے اسے ناکارہ بناکر رکھ دیا ہے۔اسی وجہ سے نئی نسل ہندوستان کی سیکیولر تاریخ سے ناواقف رہ گئی ہے اور اس خالی جگہ کو آر ایس ایس اپنے نام نہاد ہندوتواکی تاریخ سے بھرنے میں پوری طرح کامیاب ہوگئی ہے۔اس بار بڑی تعداد میں پہلی مرتبہ فہرست میں شامل ہونے والے نوجوان ووٹرس کو اسی وجہ سے مودی میں ایک قائد نظر آرہا ہے۔ گوڈسے کو دیش بھکت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بی جے پی کی جیت میں اس نوجوان نسل کا کردار بھی بڑا اہم رہا ہے۔
مشین درست ہوسکتی ہے مگر....!: ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیے۔آر ایس ایس نے اپنا جال اتنے منظم اندازمیں پھیلایا ہے کہ سرکار کے بدلنے پر سرکاری انتظامیہ کا دل ودماغ بدلنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔محکمہ پولیس، فوج اور ضلع انتظامیہ سمیت تمام محکمہ جات میں آر ایس ایس نے مرحلہ وار اپنے افراد کو داخل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے اگر آئندہ کبھی کانگریس یا کسی اور پارٹی کی حکومت بن بھی جائے تب بھی سرکاری انتظامیہ اس حکومت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے یاپھر ان کاراستہ بھٹکانے کا کام کرتی ہے۔ اس پس منظر میں اب صرف انتخابی مقاصد کو پیش نظر رکھے بغیر اس ملک کے سیکیولر اور جمہوری اقدارکے لئے جدوجہد کرنے اور ان اقدار اور اصولوں کو نئی نسل تک پہنچانے کا کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے قائم کرنے ہونگے۔ اس ضمن میں تمام پارٹیوں کو صرف سماجی و ثقافتی تنظیمیں قائم کرنے کے علاوہ نئے بھارت کی تشکیل کے لئے پوری طرح سچائی اور اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والا دستہ تیار کرنا ہوگا۔انتخاب میں اپنا مقابلہ بی جے پی جیسی سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ آر ایس ایس جیسی نظریاتی تنظیم کے ساتھ ہونے کا احساس بیدار کرنے والا پروگرام ترتیب دینا ہوگا۔انتخاب میں ای وی ایم میں بگاڑ پیدا کرکے بی جے پی کا جیت حاصل کرنا واقعی سنگین معاملہ سہی، لیکن ای وی ایم گڑبڑی کے بغیر اگر بی جے پی نے اتنے بڑے پیمانے پر جیت درج کی ہو تو؟ ای وی ایم کو درست کیا جاسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کی طرف سے ہیاک کیے گئے دل ودماغ کو کس طرح درست کیا جا سکے گا؟
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)