یو پی اسمبلی انتخابات: سب کی نگاہیں دلت مسلم پر مرکوز ۔۔۔۔ از:عبد المعید ازہری

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 8th February 2017, 3:17 PM | اسپیشل رپورٹس |

یہ موجودہ سیاست کی ناکامی ہے یا سیاست دانوں کی نا اہلی ہے کہ سیاست کا با ضابطہ تعمیر ترقی کا خاکہ تعصب اور بے ایمانی کی نظر ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے انتخابات کیلئے پیسہ، پاور اور ظلم و زیادتی لازم ہوتے جا رہے ہیں۔ دنگے اور فرقہ وارانہ فسادات کسی بھی انتخابی مہم کا اہم حصّہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اشتعال انگیز تقریریں، جذبات کو مجروح کرنے اور انھیں ابھارنے والے بیانات و تحریریں، نفرت و تشدد کا پروپیگنڈا، لالچ، مکر و فریب اور بلیک میلنگ جیسے فتنہ پرور افکار و نظریات موجودہ سیاست کے مینوفیسٹو میں شامل ہیں۔ ایسے میں شرافت، ایمانداری اور دیانت داری اپنے دامن کو بچاتے پھر رہے ہیں۔ تعمیر و ترقی کی مسدود راہیں مزید بے چینی کا شکار ہو رہی ہیں۔ سیاسی معیار اتنا گرتا جا رہا ہے کہ کوئی بھی اسے سنبھالنے میں جھجھک محسوس کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سیاست کے استحصالی رویہ کا شکار مسلم قوم اب اپنے وطن میں بھی مظلوم ہوتی جا رہی ہے۔یو پی اسمبلی انتخاب کا بگل بج چکا ہے۔ دام و فریب اپنے شباب پر ہے۔ شکاری اپنے نئے جال کے ساتھ تیار ہیں۔ برساتی مینڈک بھی میدان میں ہیں۔ کچھ پرانے تیر بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ سب کا ہدف قوم مسلم ہے۔ سب کی توجہ کا مرکز صرف مسلمان ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کو بھی ان کی پرواہ نہیں ہے۔ کوئی حب علی میں ہے تو کوئی بغض معاویہ میں ۔کچھ یزید اور ابو جھل بھی ہیں۔ عین انتخاب کے دن تک سیاسی بازیگری چلتی رہے گی۔ کسی سے اتحاد تو کسی سے بغاوت کا وقتی اور فریبی کھیل کھیلا جائے گا۔ کچھ پتے ابھی بھی کھلنے باقی ہیں۔ کچھ اپنا کام چکے ہے اور کچھ کر رہے ہیں۔بہن جی کی پارٹی اپنی داخلہ پریشانیوں سے ابھرتی نظر آ رہا ہے۔سائکل اور پنجے کا ڈرامائی اتحاد بھی اپنااثر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس اتحاد میں کس کافائدہ اور کس کا نقصان ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ اب یہ بات اتحادیوں کو بھی پتہ ہے کہ نہیں کچھ کہہ نہیں سکتے۔کانگریس نے ایسا کیا کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کی سیٹیں بڑھنے والی ہیں۔ کانگریس کو جو 100سیٹیں ملی ہیں ان میں اکثر مسلم اکثریت علاقہ ہیں اور وہ تقریباََ محفوظ سیٹیں ہیں۔ اب ایسے میں کانگریس کس بنیاد پر اپنا اثر ثابت کر پائے گی۔ سماج وادی پارٹی کا بیس اور بنیادی ووٹ 10 فیصد سی زیادہ نہیں۔ 70 سے 80 فیصد مسلمانوں کے ساتھ اقتدار کی کرسی حاصل کرتی رہی ہے۔ ایسے میں اسے کیوں لگ رہا ہے کہ اس بار مسلمان اسے ووٹ نہیں دیگا۔ اسلئے وہ کانگریس کے راہل گاندھی کے ذریعہ دلت کو اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہیں کہ اس اتحاد کے باوجود سائکل کا محفوظ ووٹ کانگریس کی امیدوار کو جائے گا۔ اگر نہیں تو اس کا فائدہ کسے ملے گا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر سماجوادی پارٹی نے بڑے کام کئے ہیں اور سرکار بھی واضح اکثریت کی ہے تو ایسے میں کسی کے کندھے کی ضرورت کیوں پڑی۔ اس اتحاد سے سائکل اور بی جے پی کا فائدہ تو سمجھ یں آتا ہے لیکن کانگریس کی دلچسپی سمجھ سے پرے ہے۔گھریلو مشکلوں سے ابھرتی ہوئی بہن کی ہاتھی نے اس بار نہایت ہی مستانی اور لبھاؤنی چال چلی ہے۔ اس بار بی ایس پی نے 103 مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ جو باقی تمام پارٹیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر مسلمان ٹوٹا اور بکھرا تو تو وہی ہوگا جس سے جمہور سماج میں خوف ہے۔یہ پروپیگنڈا سمجھ سے پرے ہے کہ یو پی میں بی جے پی کی سرکار بننے سے صرف راہل اور اکھلیش کا اتحاد ہی بچا سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کی کوئی بھی لاجک یا وضاحت سمجھ میں نہیں آ رہی اور نہ ہی کوئی سمجھانے کو تیار ہے۔ دونوں ہی پارٹیوں نے اپنے کالے کارناموں پر پردہ ڈالنے کیلئے اتحاد کا چولا پہن لیا ہے۔ سائکل کی ملایم مینیفیسٹو پر اب تک عمل نہیں اور آنے والا نیا فارمولا بھی واضح نہیں۔اس بار کا انتخاب ایک ہی مدعی کے ارد گرد گھومتا نظر آ رہا ہے۔بی جے پی کے علاوہ سبھی کی نظر دلت مسلم کے اتحاد پر ہے۔ وہیں بی جے کی پالیسی انتشار کی ہے۔ جتنا بکھراؤ ہوگا کمل کی رہیں اتنی ہی ہموار ہوں گی۔ 92 کے بعد جب مسلم کانگریس سے ٹوٹا ہے۔ سماج وادی کے ساتھ اکثر رہا ہے۔ ابھی راہل کی ریلی سے لوگوں کو لگتا ہے کہ دلت کا رجحان اس شہزادے کی جانب بڑھا ہے کیونکہ کھیت میں پھاوڑا ڈالنے، چھپر کے نیچے ڈال روٹی خانے اور چارپائی پر چرچا کرنے سے لوگوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ اس وقت دلت کی مسیحائی کا تمغہ راہل بھیا کے پاس ہے ۔بس اسی بنیاد پر دلت مسلم اتحاد کے سپنے دن میں ہی دیکھے جا رہے ہیں۔

سچائی کچھ اور ہی بیان کر رہی ہے۔ ان دونوں ہی پارٹیوں کے پاس نہ تو دلت کا ووٹ بینک ہے اور نہ ہی اب مسلمانوں کی اکثریتی حمایت ہے۔ پچھلی سرکار میں کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کیا دوبارہ مسلمان غلطی دوہرائے گا۔ وہیں دوسری طرف 22 سے 23 فیصد کا دلت ووٹ بینک بہن جی کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے۔ 103 امیدواروں کی وجہ 18 سے 19 فیصد مسلمانوں کے ووٹ پر ان کی گہری نظر ہے۔ پچھلے انتخاب کے کچھ کاغذی ریکارڈز کے مطابق بی ایس پی کا سماج وادی سے ووٹ تناسب صرف 2 فیصد کم تھا۔ جب کہ مسلمانوں نے پوری اکثریت کے ساتھ سائکل کی سواری کی تھی۔ ایسے میں ہاتھی کی چال بری نہیں۔

بی ایس پی کے پاس ایک اور مثبت پلس پوائنٹ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہندوستانی اکثریتی صوفی سنی مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے بھی بی ایس پی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے ہر مسلم علاقہ سے ووٹوں پر فرق پڑنا یقینی ہے۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے دو ہفتوں سے بورڈ کے بانی و صدر سید محمد اشرف کچھوچھوی کے میدان میں کودتے ہی نظر آ گیا۔ سیاسی گلیاروں میں مچی کھلبلی نے اشارہ کر دیا کہ اس بار مسلمان ہاتھی پر سوار ہونے کو تیار ہیں۔ سید محمد اشرف کچھوچھوی نے بھی اپنی مضبوط دعوی داری سے ہاتھی کی چال میں رفتار بھر دی ہے۔ یو پی کے بیسوں ضلعوں میں بورڈ کی شاخ سرگرم ہو گئی ہے۔ ایک ہفتہ کے اندر پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ان کے مطابق اس بار مسلمانوں کے پاس ایک اختیار بچا ہے وہ یہ کہ ہاتھی پر سوار ہو جائیں۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن کی غلطی دوہرانے کی غلطی نہ کریں۔ کسی کو ہرانے کے چکر میں اتنا غافل نہ ہو جائیں کہ بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ سائکل پر بیٹھے راہل کی وجہ سے اگر کچھ ہونے والا ہوتا تو اس اتحاد کی نوبت ہی نہیں آتی۔آنے والے دن اور تصویر کا رخ کچھ اور صاف کر دیں گے۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے اچانک میدان میں آنے سے فریب کاری اور دھوکہ دھڑی کی جھوٹی عمارت تو گری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی چھوٹی چھوٹی مسلم پارٹیوں کے درمیان آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ اور سید محمد اشرف کچھوچھوی مسلمانوں کو حکمت عملی اور دور اندیشی سے کتنا اگاہ کر سکتے ہیں۔ البتہ بی ایس پی سپریمو مایا وتی کا یہ اقدام اب تک سب سے زوردار سیاسی پنچ ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...