کاروار:یکم مارچ (ایس اؤ نیوز)سڑک کنارے بیوپار کرتےہوئے اپنی زندگی گزارنے والے باکڑا بیوپاریوں کی دکھ بھری کہانی سرکاری پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت پیش کررہی ہے۔ باکڑا بیوپاری بارش ہویا گرمی ، سڑک کنارے کی 4فٹ جگہ پر ہی ان کی روزانہ کی کمائی ہوتی ہے۔ کوویڈ کے دوران بیوپار نہ ہونےوالے نقصان کی ابھی تک بھرپائی نہیں ہوپائی ہے۔ حالات کا تذکرہ ہوتے ہی چند بیوپاریوں کی آنکھو ں میں آنسو نکل آتےہیں تو کچھ سرکار کی طرف سے دوبارہ مدد و تعاون کے منتظر ہیں۔
کاروار شہر میں 297رجسٹرڈ باکڑا بیوپاری ہیں۔ گرین اسٹریٹ، پکلے روڈ، ایم جی روڈ پر بیوپار کرنےو الے باکڑا بیوپاریوں میں اکثر مقامی ہیں۔ گرچہ پولس کا جھنجٹ نہیں ہے لیکن میونسپالٹی کا عملہ کبھی کبھی ہراساں کرتا رہتاہے۔ دکانوں کے سامنے رکھی ہوئی اشیاء کو ضبط کر کےلے جاتےہیں جب کہ باکڑا بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ میونسپل عملہ فٹ پاتھ کو اتی کرم کرتےہوئے بڑی بڑی کامپلکس کی تعمیر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے ہیں۔
ہوناور :شہر میں 124رجسٹرڈ باکڑا بیوپاری ہیں، یعنی مقامی انتظامیہ سےمنظوری لےکر بیوپار کرتےہیں۔ پٹن پنچایت کی طرف سے کوروناکے دورمیں 10ہزارروپئے کی امداد کئے جانے کے سوا اور کوئی سہولیات فراہم نہیں کی ہیں۔راستےکنارے بیٹھ کر دن بھر بیوپار کرنےو الوں کی زندگی غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ کئی ایک اتی کرم دکانوں کو نکالنے کی بات پنچایت میں کبھی کبھی سنی جاتی ہےمگر کبھی عملی طورپر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ قومی شاہراہ کنارے اجالا ہوتےہی کئی باکڑا دکانیں کھڑے ہوجاتےہیں، وقت کے ساتھ ساتھ پتھروں کی عمارت بھی بن جاتی ہے ۔غیر رجسٹرڈد کانیں کرایہ پر بھی دئیے جانے کی مثالیں ہیں۔
کمٹہ:شہرمیں قومی شاہراہ کی تعمیر کا کام جاری رہنے سے باکڑابیوپاریوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر کے اندر موجود گنجان علاقے کے ایک تنگ راستے کےکنارے ہی ترکاری اور پھل وغیرہ کی دکانیں ہیں۔ شاہراہ اور مین روڈ کے کنارے سیکڑوں باکڑا دکانیں ہیں، پہلے پہل صرف ترکاری اور پھل کی دکانیں ہوتی تھیں۔ اب کپڑے، سوکھی مچھلی ، پلاسٹک اشیاء اور زرعی سامان کی دکانیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ ان دکانوں پر زیادہ تر عورتیں ہی بیوپار کرتی ہیں۔ انہیں گرمی یا دھوپ میں کسی درخت کا سایہ ہی سہاراہوتاہے۔ اگر تیز ہوا کی وجہ سے کسی درخت کی ٹہنی ٹوٹ گئی ،سڑک حادثہ ہواتو اس کے پہلے شکارباکڑا بیوپاری ہوسکتے ہیں اور بیوپار کے ساتھ وہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو سکتےہیں۔
سداپور:شہر کے راستوں کے کنارے کپڑے ، پھل ، ترکاری ، فاسٹ فوڈ اور دیگر اسٹیشنری کی دکانوں کے ذریعے بیوپار ہوتاہے۔ ہر شہر کی طرح یہاں کے باکڑا بیوپاری بھی کروناکے دوران مشکلات کا سامنا کررہےہیں ، آج بھی ان سے باہر نکلنےکی کوشش میں ہیں۔ شہر میں 105رجسٹرڈ باکڑا دکانیں ہیں۔ یہ لوگ ہر دن مقامی انتظامی اداروں کو ٹیکس ادا کرتےہیں۔
انکولہ :تعلقہ میں باکڑا دکانوں کی حالت ابتر ہے۔ باسگوڈ میں روزانہ 25سے زائد عورتیں کسی سائے کے بغیر کڑی دھوپ میں ہی مچھلی اور ترکاری کا بیوپار کرتی ہیں۔تین گرام پنچایتوں اور شہر سے رابطہ کرنےوالی اس اہم جگہ پر پنچایتوں کی طرف سے کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ متعلقہ مقام پر اپنی جڑیں مضبوط کئے چند بیوپاری ، نئے بیوپاریوں کو کوئی موقع نہیں دیتے۔ میونسپالٹی بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتی ۔ اہم جگہوں کو چھوڑکر دوسری جگہوں پر بیوپار کرنےو الوں کو ڈرا دھمکا کر رسید دئیے بغیر فیس لئےجانے کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں ۔
منڈگوڈ:8برس پہلے مقامی انتظامیہ کی طرف سے آپریشن فٹ پاتھ کرنےکے بعد باکڑا بیوپاریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ شہر کے شیواجی سرکل، بس اسٹانڈ روڈ، بنی کٹا پر ٹوکریوں اور دھکیل گاڑیوں میں ترکاری،موز، ناریل ، کپڑے وغیرہ کا بیوپار کرتے ہیں ۔ ایک کو دیکھ کر کئی اور لوگ بیوپار کرنے سے ٹرافک کےمسائل بھی پیدا ہورہےہیں۔
سرسی :گنجان ٹرافک کو روکنے ، بہتر مارکیٹ کا انتظام تشکیل دینے کے لئے وقت ، وقت پر باکڑا بیوپاریوں کو نکال باہر کیا جاتا رہا ہے۔ فی الحال میونسپالٹی کی طرف سے شناخت کردہ 618باکڑا بیوپاری ہیں۔ جنہیں شناختی کارڈ دیا گیا ہے۔ بڈکی بائیل کے اطراف، نٹراج روڈ، دیوی کیری ، وکاش آشرم میدا ن کے قریب، یلاپور ناکہ سمیت چندایک جگہوں پر باکڑا بیوپاری کی دکانیں ہیں۔ کورونا سے بگڑے حالات میں ابھی تک کوئی سدھار نہیں آیاہے۔ ایک وقت کھانے کے لئے بھی انہیں ترسنا پڑ رہاہے۔ میونسپالٹی کو روزانہ 30روپئے بطور ٹیکس ادا کرتےہیں ، صرف چند ہی لوگوں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔بیوپاریوں نے دکھڑا سناتے ہوئے کہاکہ کھانے پینے کے لئے کوشش کئے جانے کے بعد بھی کوئی آمدنی نہیں ہوپارہی ہے، ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو کون پوچھنے والا ہے۔