واشنگٹن اور کابل افغانستان سے چار ہزار فوجیوں کے انخلا پر متفق؟
کابل، واشنگٹن 16دسمبر (آئی این ایس انڈیا) افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل مارک ملی کے افغانستان کے حالیہ دورے میں واشنگٹن اور کابل نے 4000 امریکی فوجیوں کے انخلا پر اتفاق کیا تھا۔افغان نائب صدارتی ترجمان دوا خان مینہ پال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں میں کمی کا افغان مفاہمتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسری جانب ایک اور عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا آئندہ تین ماہ میں شروع ہو جائے گا تاہم اس وقت بھی زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔اس حوالے سے افغان فوج کے سابق جنرل عتیق اللہ امرخیل کا کہنا تھا کہ امریکی فوج میں کمی سے جنگ کے میدان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ امریکی فوج طالبان کے خلاف دو بدو لڑائی کا حصہ نہیں ہے۔امریکی خبر رساں ادارے این بی سی نیوز نے بھی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے 4000 ہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکی صدر اپنے مشیروں کو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ نومبر 2020 میں صدراتی انتخابات سے قبل افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کے مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں۔ ان میں سے ایک انسدادِ دہشت گردی کا مشن محدود طور پر جاری رکھنا بھی ہے۔یاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت تقریباً 13 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن میں سے پانچ ہزار انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بقیہ فورس افغان فورسز کی تربیت اور مشاورت کے فرائض انجام دے رہی ہے۔بریفنگ کے دوران جنرل مارک ملی نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کم سے کم موجودگی بھی ایک ممکنہ قدم ہو سکتا ہے۔