سعودی عرب کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے: انتونیو گوٹیریس
ریاض،22؍ دسمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اور شہریوں کو میزائل حملوں کے جواب میں عالمی ادارے کے منشور کے مطابق اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ بالخصوص یمن میں جاری تنازع ، حوثیوں کے سعودی عرب کی جانب حالیہ میزائل حملے ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے ،میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم اور شامی تنازعے سمیت دنیا میں درپیش مختلف مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
مسٹر انتونیو گوٹیریس نے ایک سوال کے جواب میں حوثیوں کے شہری اہداف پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے نمبر پر تو تنازع کے کسی فریق کو میزائل مہیا کرنا اقوام متحدہ کی عاید کردہ اسلحے کی پابندی کی خلاف ورزی ہے۔ دوم، شہروں کے خلاف بیلسٹک میزائلوں کے حملے مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں‘‘۔ان سے جب سوال کیا گیا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ تنازعات کے حل میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا؟ تو انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ’’اس وقت مشرق وسطیٰ کا خطہ مسائل کی آماج گاہ بنا ہو اہے اور یہ ایک بڑا عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ القدس کے بارے میں حالیہ فیصلے سے خطے میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ القدس کے بارے میں ہمارا موقف بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ اس کا فیصلہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات پر بڑی مایوسی ہوئی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے دوسرے بحرانوں کے حل کے لیے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ دنیا میں جاری بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ایک خوف ناک المیے کا سامنا ہے۔ سات لاکھ روہنگیا آبادی میانمار سے جانیں بچا کر بنگلہ دیش چلی گئی ہے۔
انتونیو گوٹیریس نے کہا کہ میرا اب یہ یقین ہے کہ ہم اس وقت ہی تنازعات کے حل اور انھیں روکنے میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں، اگر سلامتی کونسل موثر اور متحد ہو۔ سلامتی کونسل میں تقسیم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے تنازعات کے حل کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں تنازعات میں الجھے ہوئے فریقوں کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان کے درمیان مفادات کے تصادم کی حیثیت شاید وسیع تر مفادات کے مقابلے میں بہت کم اہمیت کی حامل ہو۔ کیونکہ یہ تنازعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ عالمی دہشت گردی کے نئے خطرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ دہشت گردی کہیں بھی کسی کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی یک رْخی نہیں ہے، لوگ بعض اوقات ریڈیکل اسلام کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ ہم اس کے ساتھ نیو نازیوں اور سپر ماشسٹوں کو بھی دوبارہ ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے بدھ مت انتہا پسندوں کو مسلمانوں پر حملے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ممالک تنازعات کے خاتمے کی اہمیت کو سمجھیں۔ہمیں ان لامتناہی تنازعات کو روکنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے طلال الحاج کے یمنی حوثیوں کے سعودی دارالحکومت کی جانب بیلسٹک میزائلوں کے حملوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہم نے ان میزائل حملوں کی مذمت کی ہے اور شہروں کے خلاف تمام میزائل حملوں کی مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے کہ کسی تنازع میں شہری اہداف فوجی اہداف بن جائیں‘‘۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اقوام متحدہ کا تحقیقاتی کمیشن سعودی عرب کی جانب داغے گئے میزائلوں کے بارے میں سو فی صد اس نتیجے تک ابھی نہیں پہنچا ہے کہ آیا یہ ایرانی ساختہ تھے۔ البتہ ان پر کندہ علامتیں ایرانی علامتوں کے مشابہ پائی گئی ہیں‘‘۔انھوں نے یمن میں جاری تنازع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ایسا حل تلاش کیا جائے جس کے تحت یمن میں ایک مشمولہ حکومت قائم کی جائے جس میں جمہوری طریقے سے تمام فریقوں اور آبادی کے تمام طبقوں کی نمائندگی ہو۔ پھر مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا جائے، ان سے ہتھیار واپس لیے جائیں۔ یمن کے ہمسایہ ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کی سلامتی کی ضمانت دی جائے۔ ہم اسی قسم کے حل کے لیے کام کرنا چاہیں گے۔
ان سے جب سعودی عرب میں جامع اصلاحات کے منصوبے ویڑن 2030ء پر عمل درآمد، تیل کی معیشت پر انحصار کم کرنے اور خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق سوال کیا گیا کہ آپ ان سب اقدامات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں تو مسٹر گوٹیریس یوں گویا ہوئے:’’میرے خیال میں سعودی عرب ایسے ملک کو اپنی معیشت میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، اس کو تیل کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے آیندہ چند عشروں کے دورا ن میں تیل کا کردار موجودہ کردار سے بالکل مختلف ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے ممالک کو اپنی اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے‘‘۔
’’جہاں تک خواتین کو بااختیار بنانے کا تعلق ہے تو میں نے سب سے پہلے ان اقدامات کو سراہا تھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صنفی مساوات یہاں اقوام متحدہ میں میرا مقصد ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی صنفی برابری کے لیے کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس کو میری مکمل حمایت حاصل ہوگی‘‘۔