تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلائوگے! ۔ ۔۔۔۔ (از:۔مدثراحمد)
پچھلے دنوں کوویڈ سے متاثر ہونےو الے افراد کوجیسے ہی آکسیجن کی قلت ہوئی تو دنیاکے مختلف مقامات سے آکسیجن کے ٹیانکر بھارتی مریضو ں کیلئے پہنچائی گئی۔بھارتی حکومت کوکئی ممالک کے حکومتوں نے طبی سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے جو مرحلہ وار سطح پر بھارت پہنچ رہی ہے۔انہیں حکومتوں میں سے سعودی عرب ایک ملک ہے جو وہاں سے آکسیجن کے ٹیانکر اور کچھ وینٹی لیٹر بھارت بھیجے ہیں۔بھارت کیلئے سعودی عرب نے جو آکسیجن بھیجی ہے وہ اتنی بڑی مقداربھی نہیں ہے کہ سارا بھارت اس آکسیجن سے استفادہ کرپائے۔اطلاعات کے مطابق جو آکسیجن بھارت کو پہنچایاگیاہے وہ صرف اور صرف ایک دن کیلئے کافی رہاہے۔مگر بھارت کے مسلمانوں نے اس آکسیجن سپلائی کے مرحلے کو اس قدر بڑھاوادیاکہ مانوبھارت میں اب سعودی عرب کی آکسیجن کے علاوہ اور کسی ملک کی آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑیگی۔یقیناً سعودی عرب نے بھارت کو آکسیجن دیکر انسانیت کا حق اداکیا،لیکن بھارت کے ہندو اور مسلمانوںنے پھر وہی مذہب کے نام پر کیچڑ بنایا۔مسلمانوں نے سینہ تان کرکہاکہ دیکھو محمدﷺکےشہرسے آکسیجن آئی ہے،تو اسی بات کو لیکر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں پر طنز کسنا شروع کیاکہ مسلمان معمولی گیس کو لیکر بہت زیادہ گھمنڈکررہے ہیں،یقیناً مسلمانوں کو خوش ہونا ہی ہےکہ سعودی عرب نے بھارت کی حکومت کی طرف سے لاکھ طرح کی پریشانیوں مسلمانوں کو کھڑے کرنے کے باوجودبھارت کیلئےآکسیجن کی سپلائی کی ہے۔لیکن اس بات کو لیکر مسلمان جذباتی ہونے کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں تو یقیناً اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگا۔کیونکہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں کئی طرح کے چیلنجس ہیں،ہر دن مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے حراساں وپریشان کیاجارہاہے،کبھی گائے کا نام پر موب لنچنگ کی جارہی ہے تو کبھی محبت کی شادیوں کے نام پرنوجوانوں کاقتل کیاجارہاہے۔ان تمام چیلنجس سے نمٹنے کیلئے بھی ہمیں محتاط ہوکر ہوش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر جذبات سےہی سب کچھ ممکن ہوتاتو آج بھارت میں مسلمانوں سے زیادہ سنگھی کامیاب ہوئے ہوتےجو جئے شری رام کے نعرے لگاکرپورے ملک میں اندھی تقلید کرواتے،لیکن آج بھی ہوش سے کام لینے والے ہندوئوں کی بڑی تعداد ہےا ور وہ لوگ جذباتی نہ ہوتے ہوئے ہوش سے کام لیکر ملک میں سالمیت بحال رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ آخر مسلمان چند ٹیانکر آکسیجن کو لیکرجذباتی کیوں ہورہے ہیں؟برسوں سے تو وہاں سے پٹرول آرہاہے،ڈیزل آرہاہے تو اُس وقت کیوں تم لوگوں نے جذباتی باتیں نہیں کی کہ محمدﷺکے شہرسے پٹرول آیا!۔رہی بات سعودی عرب کے دریا دلی کی اُس سے کہیں بڑھ کر خدمت تو بھارت کےہی کچھ مسلمان کررہے ہیں جو مسلمان جانناہی نہیں چاہ رہے۔جن میں مہاراشٹر کے ناگپورکے پیارے خان ہیں جنہوں نےروزانہ200میٹرک ٹن آکسیجن کی سپلائی کی ہے او ر انہوں نے اس کیلئے لگ بھگ ایک کروڑ روپئے خرچ بھی کرچکے ہیں۔اسی طرح سے فرنٹ لائن کورونا وایئررس کے طورپر درجنوں مسلم ڈاکٹرس،نرس،افسران،ایمبولنس ڈرائیورس،صحافی بھی تو اپنی جان کی بازی لگاکر رسول ﷺ کی اُمتی ہونے کا فرض اداکررہے ہیں۔مسلمان اُن باتوں پر جذباتی نہیں ہوتے جہاں پر ضرورت ہو اور اُن مقامات پرزیادہ جذباتی وجوشیلے ہوجاتے ہیں جہاں پر قطعی ضرورت نہیں پڑتی۔ملک کے حالات دیکھ کر ہمیں اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔بھوپال کا وہ نوجوان جاویدخان جس نے کوروناسے جوج رہے مریضوں کی مددکیلئے اپنی بیوی کے زیورات کو بیچ کر آٹو رکشا خریدااور اُس سے خدمت خلق کا سلسلہ شروع کیا۔اس پر تو ہم جذباتی نہیں ہورہے،ہم نے اس نوجوان کا شکریہ اداکیااور نہ ہی کم ازکم اُس کی طرح بننے کی کوشش کی۔یہ بھی چھوڑئیے جو حکومت نےقانون بنایاہے اس قانون کے مطابق رہنے کی کوشش بھی نہیں کی۔پھر سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ جذبات سے کام نہ لیں بلکہ ہوش سے کام لیں،کیونکہ ساری کائنات اللہ کی ہے اور اللہ نے ہر چیز کوبنایاہےاور وہی محمدﷺکےشہرکو بھی بنانے والاہے اور ہمارے شہروں کو بھی۔اس لئےاللہ نے قرآن میں پوچھا کہ تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلائوگے!
(مضمون نگار شموگہ سے شائع ہونے والے روزنامہ آج کا انقلاب کے ایڈیٹر ہیں)