امن معاہدے کے بعد امریکہ کا طالبان پر پہلا حملہ
کابل، واشنگٹن / 4مارچ (آئی این ایس انڈیا)امن معاہدے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان پر پہلا فضائی حملہ کیا ہے۔ امریکی فوج نے حملے کو دفاعی حکمت عملی قرار دیا ہے۔افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صوبہ ہلمند میں نہر سراج کے قریب فضائی کارروائی کی گئی۔ اس حملے میں ان طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا جو افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کی چوکی کو نشانہ بنا رہے تھے۔کرنل سونی نیگیٹ نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 دن میں یہ طالبان کے خلاف کیا گیا پہلا حملہ تھا۔انہوں نے اس کارروائی کو دفاع میں کیا گیا حملہ قرار دیا۔ایک اور ٹوئٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک روز قبل یعنی صرف تین مارچ کو طالبان نے صوبہ ہلمند میں افغان فورسز کی چوکیوں پر 43 حملے کیے۔ طالبان افغانستان کو غیر ملکی فوج سے آزاد کروانے تک لڑائی کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے میں فوج کے انخلا کے حوالے سے مختلف شرائط موجود ہیں۔کرنل سونی لیگیٹ نے کہا کہ طالبان قیادت نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ تشدد میں کمی لائیں گے جب کہ حملوں میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔امریکہ اور طالبان نے افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر دستخط گزشتہ ہفتے 29 فروری کو ہوئے تھے۔ اس موقع پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کو طے پانے والے معاہدے کی رو سے امریکہ اور اس کے اتحادی 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کریں گے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔امریکہ کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد جب کہ طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 14 مہینوں میں مکمل ہو گا۔پہلے مرحلے میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ماہ میں 8600 تک لائی جائے گی۔ اس کے بعد باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں ہو گا۔امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے۔اوسلو میں بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان اور امریکہ ایک دوسرے کے قیدیوں کی حتمی فہرست حوالے کریں گے۔طالبان کے بقول اُن کے 5500 قیدی امریکی قید میں ہیں جب کہ طالبان لگ بھگ ایک ہزار مغویوں کو رہا کریں گے۔ ان قیدیوں کو تین ماہ کے اندر رہا کیا جائے گا۔انٹرا افغان مذاکرات کے دوران 27 اگست تک امریکہ طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں اٹھائے گا اور اقوام متحدہ بھی طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم کرے گا۔معاہدے کے تحت طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔امریکہ افغانستان کو تعمیر نو اور بین الافغان مذاکرت کے بعد نئے سیاسی نظام کے لیے اقتصادی معاونت جاری رکھے گا لیکن افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔دوسری جانب امن معاہدے کے اگلے روز ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے میں 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی کا ذکر ہے تاہم افغان حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔اشرف غنی نے کہا کہ طالبان افغانستان کی جیلوں میں قید اپنے ساتھیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ تاہم براہِ راست مذاکرات سے قبل کسی شرط پر عمل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغانستان کے عوام کا حق ہے۔اس امن معاہدے کے تحت طالبان کو 10 مارچ تک اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان حکام کو رہا کرنا تھا جس کے جواب میں طالبان کے 5000 قیدیوں کو رہائی ملنی تھی۔مقامی پولیس نے بتایا کہ طالبان نے پنجواہی اور میوند کے علاقوں میں اْن کی پانچ پوسٹوں پر حملے کیے۔