قطر کی جانب سے حزب اللہ کی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ خاموش: امریکی اخبار
دبئی، 15/اگست (آئی این ایس انڈیا)امریکی انتظامیہ نے اُن رپورٹوں کے حوالے سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قطر ممکنہ طور پر ایران نواز لبنانی دہشت گرد ملیشیا حزب اللہ کی فنڈنگ کر رہا ہے۔
امریکی اخبار "واشنگٹن فری بیکن" نے امریکی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ معاملہ ایک اعلی سطح کے امریکی وفد کے دوحہ کے دورے کے موقع پر تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے سامنے آنے والی رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ قطر نے لبنان میں حزب اللہ کو ہتھیاروں کی کھیپوں کے لیے فنڈنگ کی ہے۔ مذکورہ اخبار کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے بدھ کے روز وزارت خارجہ میں انسداد دہشت گردی کے امور کے رابطہ کار نیتھن سیلز کو قطر بھیجا۔ سیلز لبنان بھی جائیں گے جہاں حزب اللہ کا معاملہ ممکنہ طور پر ایجنڈے میں شامل ہو گا۔
غالب گمان ہے کہ دہشت گردی کے لیے فنڈنگ میں قطر کے کردار پر ٹرمپ انتظامیہ کی خاموشی کے نتیجے میں امریکی انتظامیہ اور کانگرس میں ریپبلکن ارکان کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو گا۔ ان ارکان کے نزدیک قطر ان دہشت گرد جماعتوں کی فنڈنگ کر رہا ہے جن کے بارے میں دوحہ کا دعوی ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر ان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس معاملے پر روک لگانے کی ایک بڑی وجہ قطر کی جانب سے العدید کے فوجی اڈے کی میزبانی ہے۔ یہاں امریکی مرکزی کمان کا علاقائی ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔ علاوہ ازیں قطر پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ جاسوسی کی اُن کارروائیوں میں ملوث ہے جن میں امریکا کی نمایاں شخصیات اور امریکی یہودی کمیونٹی کی شخصیات کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
قطر نے حزب اللہ کو ہتھیاروں کی غیر قانونی ترسیل میں اپنے کردار کو چھپانے کی کوشش کی۔ فوکس نیوز کے مطابق اس مقصد کے لیے معاملے سے متعلق فریقوں کو رشوتیں پیش کی گئیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے غیر سرکاری طور پر رپورٹ کو تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ ذمے دار نے "واشنگٹن فری بیکن" اخبار کو بتایا کہ امریکی وزارت خارجہ نے لبنانی حزب اللہ کی فنڈنگ میں قطر کے کردار کے حوالے سے حالیہ رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے۔
ادھر علاقائی میڈیا رپورٹوں نے امریکی ذمے داران کا نام لیے بغیر ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ دوحہ کا دورہ کرنے والے امریکی وفد کو جزوری طور پر یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ حزب اللہ کی فنڈنگ سے متعلق دعوؤں کی تحقیق کریں۔ العربیہ نیوز چینل کے مطابق امریکا حزب اللہ کے لیے اس ممکنہ فنڈنگ کے حوالے سے انتہائی تشویش رکھتا ہے اور وہ اس موضوع کو قطری ذمے داران کے ساتھ زیر بحث لانا چاہتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ان رپورٹوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ ہفتے بیروت میں ہونے والے زور دار دھماکے کے بعد حزب اللہ پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس خوف ناک دھماکے کے نتیجے میں 7000 سے زیادہ افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور لبنانی وزیر اعظم اور حکومت مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئی۔
اس موقع پر امریکا نے لبنان کے لیے امداد بھیجی ہے جس کے حوالے سے اندیشے سر اٹھا رہے ہیں کہ یہ مالی رقوم حزب اللہ کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ لبنانی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد حزب اللہ حکومتی سطح پر اقتدار میں پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بیروت دھماکے سے پہلے بھی حزب اللہ لبنان میں حکومتی اور عسکری منصبوں پر تقریبا مکمل کنٹرول کے مزے لُوٹ رہی تھی۔
قطر نے واشنگٹن میں اپنے سفارت خانے کی زبانی حزب اللہ کی فنڈنگ کی تردید کی ہے۔ قطر کے مطابق فوکس نیوز کے مضمون کے لکھاری دوحہ کے خلاف جانب داری کا شکار ہیں۔
غالب گمان ہے کہ حزب اللہ کے لیے قطر کی فنڈنگ کے معاملے کو کانگرس کے ریپبلکن ارکان لبنان کے واسطے اقتصادی امداد میں کمی کی کوششوں کے لیے استعمال میں لائیں گے۔ اس بنیاد پر کہ یہ امدادی رقوم حزب اللہ کے ہتھیاروں میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان جو ٹرمپ انتظامیہ کے اتحادی ہیں ،،، وہ وائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں کیوں کہ آخر الذکر دونوں ادارے یہ اصرار کرتے ہیں کہ لبنانی فوج کے لیے امریکی ٹیکس دہندگان کی رقوم سے فنڈنگ درحقیقت امریکی مفاد میں ہے۔ اگرچہ اس بات کے دلائل موجود ہیں کہ اس رقم سے فائدہ اٹھانے والا مرکزی فریق حزب اللہ ہے۔
امریکی کانگرس کی توپوں کا رخ کچھ وقت کے لیے قطر کی جانب رہا۔ یہ دوحہ کی ان کوششوں کے پیش نظر تھا جن کے تحت اس نے امریکی اکیڈمک سسٹم میں دراندازی اور میڈیا پروپیگنڈے کے لیے اربوں ڈالر کی رقم خرچ کر دی۔ علاوہ ازیں قطر امریکی کانگرس کے متعدد اجلاسوں میں موضوع سخن رہا بالخصوص ان دہشت گرد حملوں کی فنڈنگ کے حوالے سے جن میں امریکیوں کی ہلاکت ہوئی۔
امریکی وزارت خزانہ میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے امور کے سابق تجزیہ کار جوناتھن شینزر کے مطابق حزب اللہ کے ساتھ قطر کے تعلقات کے انکشاف پر امریکا کو تشویش ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا پر لازم ہے کہ اس بات کا تعین کرے کہ یہ الزامات کس حد تک درست ہیں۔