بکر پرائز حاصل کرنے والی مشہور ادیبہ اروندھتی رائے نے ملک کی حالت کو قرار دیا شرمناک ، حادثے کی جانب بڑھنے والے طیارہ سے کی تعبیر
نئی دہلی 13 جولائی (ایس او نیوز) بکر پرائز حاصل کرنے والی مشہور ادیبہ اروندھتی رائے نے ملک کے موجودہ حالات کو نہایت شرمناک قرار دیتے ہوئے ملک کو حادثے کی جانب بڑھنے والے طیارہ سے تعبیر کی اور کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ہوائی جہاز ہے جو پرواز کے دوران مخالف سمت میں اڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ’’طیارہ حادثے کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو 'نفیس قوانین‘ کی ایسی سرزمین مانا جاتا ہے، جہاں قانون کا نفاذ دراصل ’ذات پات، طبقے، جنس اور نسل‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ایک کتاب کی رسم اجرائی کے موقع پر اروندھتی رائے نے کہا کہ ایک دور تھا جب سن 1960 کے عشرے میں بھارت دولت اور اراضی کی تقسیم نو جیسی ’حقیقی انقلابی تحریکوں‘ کی قیادت کر رہا تھا اور اب حال یہ ہے کہ ملکی رہنما محض ’پانچ کلو چاول اور ایک کلو نمک‘ بانٹتے ہوئے ووٹ مانگتے ہیں اور انتخابات جیت بھی رہے ہیں۔
’دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘ اور ’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نیس‘ جیسے ناولوں کی مصنفہ نے کہا، ’’میں نے حال ہی میں اپنے ایک پائلٹ دوست سے پوچھا تھا، ’کیا آپ جہاز کو پیچھے کی طرف اڑا سکتے ہیں؟‘ وہ زور سے ہنسا تھا۔‘‘ رائے نے کہا کہ تب انہوں نے کہا تھا، ’’یہاں بالکل یہی ہو رہا ہے۔‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس ملک کے رہنما ہوائی جہاز کو الٹی سمت میں اڑا رہے ہیں، سب چيزيں گر رہی ہیں اور ہم ایک حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘
رائے کے مطابق ہندوستان کو ایک ’نفیس قوانین‘ کی سرزمین کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ وہ ملک ہے، ’جہاں آپ کی ذات، طبقے، جنس اور نسل‘ کو دیکھتے ہوئے قوانین کو مختلف انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔
’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کتاب کی رسم اجرائی کے موقع پر اروندھتی رائے نے کہا کہ آج ہم یہاں ایک ایسے پروفیسر کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جو 90 فیصد مفلوج ہیں اور سات برسوں سے جیل میں ہیں۔ ہم یہی تو کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ بتانے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ہم کس طرح کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے۔‘‘
کتاب کے مصنف پروفیسر جی این سائی بابا کے تعلق سے بتاہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معروف بھارتی کارکن ہیں۔ وہ جسمانی طور پر تقریباﹰ 90 فیصد معذور ہیں اور نقل و حرکت کے لیے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی نظموں اور خطوط پر مبنی کتاب ’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کے ان دنوں کافی تذکرے ہو رہے ہیں۔ سن 2017 میں مہاراشٹر کی ایک عدالت نے ماؤ نواز باغیوں سے تعلق رکھنے اور ’ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے‘ جیسی سرگرمیوں سے متعلق الزامات کے تحت انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
وہ دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں تاہم گزشتہ برس انہیں ان کی سروس سے بھی برخاست کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی سزا اور ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری ڈی راجا بھی اس کتاب کے اجرا کی تقریب میں موجود تھے۔ انہوں نے سائی بابا کی فوری رہائی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا اور کہا کہ آج کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کمیونسٹوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر شکست دے سکتی ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے۔
ڈی راجا کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ کچھ لوگوں کو ’اربن ماؤ نواز‘، 'اربن نکسلائٹ‘، 'ملک دشمن‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں جیلوں میں ڈال کر اور اذیتیں دے کر وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں انہیں خبردار کرتا ہوں کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایک کمیونسٹ کو مارا تو جا سکتا ہے، لیکن نریندر مودی کسی کمیونسٹ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔‘‘