نظر ثانی شدہ نصابی کتب کو کوڑے دان میں پھینک دیں:سدارامیا
بنگلورو، 6؍ جون (ایس او نیوز) کرناٹک وزیر اعلیٰ کی جانب سے حالانکہ نصابی کتب نظر ثانی کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا ہے اور نظر ثانی شدہ نصابوں سے متعلق تنازعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیا‘اپوزیشن لیڈرسدا رامیا نے آج کہا کہ نظر ثانی شدہ نصاب کو کوڑے دان میں پھینک دینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے سچائی ظاہر کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ ہندوؤں کے احساسات مجروح ہوتے تھے،تدریسی نصاب پر نظر ثانی کی گئی تھی اب ریاستی وزیر کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہئے کہ کون ہندو ہیں اور کس کے احساسات مجروح ہوئے ہیں۔سدا رامیا نے سوال کیا کہ پر ہجوم احتجاج شروع ہوگئے ہیں اور احتجاجی ہندو ہی ہیں۔
ان کا کسی اور مذہب سے تعلق نہیں ہے۔وزیر تعلیم ناگیش بتائیں کہ کیا یہ صحیح نہیں ہے؟سدارامیا نے اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ بسواونا، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر،ساوتری بائی پولے، نارائنہ گرو اورکوئمبو جیسی عظیم شخصیتوں کوحاشیہ پر رکھ دیا گیاہے۔نظر ثانی شدہ نصابوں کا دفع کرتے ہوئے کمیٹی چیرمین نے ان کی تحقیق کی ہے۔
نظر ثانی شدہ نصاب پر ہندوؤں نے ہی الزامات عائد کئے ہیں۔انہوں نے وزیر تعلیم ناگیش سے یہ سوال بھی کیا کہ نصابی کتب کی نظر ثانی کمیٹی نے پسماندہ طبقات اور دلتوں کے اسکالروں کو کیوں نظر انداز کیا؟کیا ان کا شمار ہندوؤں کے زمروں میں نہیں ہوتا جن کی بات ناگیش کر رہے ہیں۔
ذات پات کے اسباب پران کو شامل نہیں کیا گیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نظر ثانی شدہ نصاب میں باسونا اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو نظر انداز کیا گیا اور ان کی تحقیر کی گئی کیونکہ انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔
سدا رامیانے کہا کہ نارائنہ گرو اور کوومپو کو نظر انداز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندو مت کی خامیوں کو اجاگر کیا تھا۔ سدا رامیانے مزید کہا کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات ملک کی آبادی کا یک بہت بڑا حصہ ہیں۔سرکاری اسکولوں کو آنے والے زیادہ تر بچے اسی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔نصاب پر نظر ثانی سے متعلق واقعات سے انہیں بھی دکھ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نا صرف ہندوؤں کی اکثریت بلکہ کرناٹک کی 6.5 کروڑ آبادی کو تعلیمی نصاب پر نظر ثانی سے تکلیف پہنچی ہے اور کہا کہ یہ نظر ثانی ایک ماقوس ذہینت رکھنے والے شخص نے کیا ہے۔ نظر ثانی کمیٹی نے کنڑا زبان کی پہلی تا دسویں کلاس کی نصابی کتب اور چھٹی تا دہم کلاسوں کی سائنس کی نصابی کتب پر نظر ثانی کی ہے۔
کمیٹی نے پی یو سی سال دوم کی تاریخ کی کتاب پر بھی نظر ثانی کی ہے۔نصاب میں آر ایس ایس کے بانی ہیگڈے بار اور دیگر دائیں بازو کے ادبی مضامین کو نصاب میں شامل کرنے سے تنازعہ کا آغاز ہوا تھا۔مذہبی رہنماؤں نے چیف منسٹر بومائی کو موسومہ مکتوب میں الزام عائد کیا کہ نصابی کتب میں بساونا کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔