اُڈپی : پڈوبیدرے بجلی پلانٹ سے علاقے کی عوامی صحت پر بہت برے نتائج : 74.93کروڑ روپئے معاوضہ ادا کرنے ماہرین کمیٹی کی سفارش
اُڈپی:10؍مارچ (ایس اؤ نیوز) پڈوبیدرے کے قریب ائیلور میں واقع گوتم اڈانی کی ملکیت والے میگنیز پرمنحصر بجلی پلانٹ سے علاقے کی عوامی صحت پر بہت برے نتائج مرتب ہوئے ہیں جس کو دیکھتے ہوئے ماہرین کمیٹی نے 74.93کروڑ روپئے معاوضہ ادا کرنے کی سفارش کی ہے۔
ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق ’اُڈپی پاور کارپوریشن لمیٹیڈ(یو پی سی ایل)کے ذریعے منصوبہ جاتی حدود والے علاقے میں ماحولیاتی اور عوامی صحت پر ہوئے برے نتائج کا جائزہ لینے کے لئے نیشنل گرین ٹریبونل کی ہدایات کےمطابق تین ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی این جی ٹی کو رپورٹ سونپنے کہا تھا جس نے گزشتہ دسمبر میں ضلع کا دورہ کرنے والی کمیٹی نےاپنی رپورٹ یکم مارچ کو نیشنل گرین ٹریبونل کی چنئی ٹریبونل کو سونپی ہے۔
106صفحات پر مشتمل ماہرین کی رپورٹ میں 1200میگاواٹ قوت کے یو پی سی ایل پلانٹ کی وجہ سے اطراف کے 10 کلو میٹر تک علاقے کے عوام کی صحت پر ہونے والے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔11نومبر 2010کو یہ منصوبہ جاری ہواتھا، خاص کردوسرا مرکز 19اگست 2012میں کام کرنا شروع کرنےکے بعد علاقے میں ہوا سے پھیلنے والی بیماریاں جیسے استما، سانس لینےمیں دشواری (اے آر آئی )، برانکائی ٹیس اور کینسر کے مریضوں میں اچانک اضافہ ہونے کو لےکر رپورٹ میں تشویش جتائی گئی ہے۔ اسی طرح پانی سےپھیلنے والی بیماریوں میں گردوں سے متعلق بیماریاں اور کینسر میں تیزی کے ساتھ اضافے کو دکھایا گیا ہے۔
ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یوپی سی ایل منصوبے کی وجہ سے اطراف کے 10کلومیٹر علاقے میں آنے والے 15دیہات میں 2008-09سے 2019-2020 تک استما کے مریضوں میں 17فی صد، اے آر آئی میں 171فی صد اور کینسر کےمریضوں میں 293فی صد اضافہ ہواہے۔ وہیں پانی سے پھیلنے والی گردوں کی بیماریوں میں 55فی صد اور کینسر میں 109فی صد بڑھوتری کا پتہ چلا ہے۔
اُڈپی ضلع صحت عامہ اور خاندانی فلاح وبہبودی افسر (ڈی ایچ اؤ) کے ذریعے حاصل کردہ پی ایچ سی سمیت مختلف سرکاری اسپتالوں میں علاج پائے گئے بیماریوں کی تعداد کی بنیاد پر ماہرین نے رپورٹ تیار کی ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں علاقے کے مریضوں کا منگلورو، اُڈپی ، منی پال سمیت ضلع اور دیگر پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کئے ہوئے مریضوں کو شمار نہیں کیاگیا ہے۔ رپورٹ میں 10کلومیٹر حدود کے 15 دیہاتوں میں گھر گھر پہنچ کر سروے کے ذریعے جانکاری حاصل کرنے کی صلاح بھی دی گئی ہے۔ اور یو پی سی ایل منصوبے کی وجہ سے علاقے کے عوام کی صحت پر ہونےو الے برےنتائج کے عوض میں ماہرین نے کہا ہے کہ یوپی سی ایل کل 70،04،10،828روپئے بطور معاوضہ ادا کرے۔ دراصل یہ معاوضہ منصوبے کی حدود میں آنے والے 10کلومیٹر تک پھیلے ہوئے 15 دیہاتوں کے 2020تک کے مریضوں کو دیاجانے والا معاوضہ ہوگا۔
کمیٹی نے استما میں مبتلا فی مریض کو 8،280روپیوں کےمطابق کل 99.65لاکھ روپئے ۔ اے آر آئی بیماری کے لئے 4248 روپئے کے تحت24،201لوگوں کو 1028.06لاکھ روپئے۔ برانکائی ٹیس میں مبتلا 60،000لوگوں کو فی کس 9446روپئے کے مطابق 5667.60لاکھ روپئے اور 174کینسر مریضوں کو فی کس 120000روپئے کے تحت 70.04کروڑ روپئے ادا کرنے کہا ہے۔
74.93کروڑ روپئے کا معاوضہ :ماہرین کی کمیٹی نے یوپی سی ایل کوکل 74.93کروڑروپئے معاوضہ ادا کرنے کہاہے۔ اس کے علاوہ سال 2019کےجون میں ٹریبونل کی طرف سےماحولیات کا جائزہ لینے کے لئے نامزد کی گئی پہلی ماہرین کی کمیٹی کی طرف سے سفارش کردہ 4.89 کروڑ ر وپئے معاوضہ کو بھی شامل کیا ہے۔ اسی کےخلاف نندی کور جن جاگرتی کمیٹی کے بی بال کرشنا شٹی نے ٹریبونل کے سامنے یوپی سی ایل کی طرف سے ہونے والے نقصانات کے معاوضہ کے لئے رٹ لگائی تھی۔ گرین ٹربیونل نے عرضی کو قبول کرتےہوئے ماحول اور عوامی صحت پر ہونے والے برے نتائج کا جائزہ لینے کےلئے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
بنگلورو میں واقع مرکزی ماحولیاتی آلودگی انسداد بورڈ کے جنوبی علاقائی ڈائرکٹوریٹ کے ایڈیشنل ڈائرکٹر اور نوڈل آفیسر جی ترومورتی کی قیادت والی کمیٹی میں آئی ایس ای اؤ، سی ای ایس پی کے پروفیسر ڈاکٹر کرشنا راج، بنگلورو این آئی اے ایس کے ڈین اور پروفیسر ڈاکٹر آر شریکانت بطور ممبر شامل تھے۔ ماہرین کی کمیٹی گزشتہ برس دسمبر 7سے 9تک تین دن یوپی سی ایل منصوبہ جاتی علاقے سےمتاثرہ دیہات کے گھروں کا دورہ کرنے کے علاوہ یوپی سی ایل پہنچ کر پلانٹ کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیاتھا۔ ضلع انتظامیہ اور صحت عامہ ، زرعی ، باغبانی اور مویشی پالن محکمہ جات سے مختلف جانکاریاں حاصل کی تھیں۔
پڈوبیدرے کےعلاقےمیں واقع بجلی پلانٹ قیام کے خلاف گزشتہ چاردہوں سے زائد عرصہ سے ان تھک جدوجہد کرنے والی نندی کور جن جاگرتی کمیٹی کے حالیہ صدر این آرآئی صنعت کار بال کرشنا شٹی پہلے ناگراجنا اس کے بعد یو پی سی ایل کے خلاف بیرون ملک رہتےہوئے قانونی جدوجہد کررہے ہیں۔
بجلی تیاری میں کمی : گوتم اڈانی کی ملکیت والی یوپی سی ایل ، مرکزی حکومت کی حمایت سے سبھی رکاوٹوں کو دور کرتےہوئے 11 نومبر 2010کو 600میگاویاٹ کا پہلا مرکز اور 19اگست 2012کو دوسرا مرکز قائم کرتے ہوئے کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد فی مرکز 800 میگاواٹ بجلی تیار کرنے والے دو مراکز کے لئے مرکزی حکومت سے منظوری لےکر اضافی 720ایکڑ زمین حاصل کرنےکی تیاری میں تھی۔ لیکن مختلف تکنکی وجوہات کی بنا یوپی سی ایل کی توسیع ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
اسی دوران سال 2017-2018کے بعد یوپی سی ایل کی بجلی کی مانگ میں خاطرخواہ کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس کی اہم وجہ یہ بتائی ہے کہ کرناٹک کو یوپی سی ایل سے بھی کم قیمت پر دوسرے بجلی پلانٹ سے بجلی مل رہی ہے۔ ماہرین کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمارات بتاتے ہیں کہ سال 2020-2021کے دسمبر تک یوپی سی ایل کا ایک یونٹ 80دن اور دوسرا یونٹ 81دن کام کرتےہوئے کل 1672.31ملین یونٹ بجلی پیدا کیاہے۔
یوپی سی ایل کی طرف سے سال 2015-2016میں کل 8097ملین یونٹ بجلی پیدا کی گئی تھی تو پہلا یونٹ 316اور دوسرا یونٹ 313دن کام کیا تھا۔ سال 2016-2017میں کل 7875.72ملین یونٹ بجلی پید ا ہوئی تھی۔ جس میں بالترتیب 345 اور281دن دونوں یونٹوں نے کام کرنےکی جانکاری رپورٹ میں دی گئی ہے۔ اس کے بعد بجلی کی پیدائش میں کافی کم ہونے کو رپورٹ میں دیکھا جاسکتاہے۔
یوپی سی ایل کو گریس مارکس: این جی ٹی کی ماہرین کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں صحت کو چھوڑکر بقیہ کئی معاملات میں یو پی سی ایل کو گریس مارکس دیتے ہوئے ستائش کی ہے۔ منصوبہ جاتی علاقے میں ہوا کےمعیار میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی ہے۔ ہوا میں گندھک اور سبھی گیس کی سطح حدود میں ہونےکی رپورٹ نےجانکاری دی ہے۔ اطراف کے ماحول میں کھلے کنوؤں کے پانی میں کوئی زہریلی اشیاء شامل نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح علاقے میں پالتو جانور سمیت کوئی جانور ہلاک ہونےکی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔