بہار میں عظیم اتحاد کی فتح کے امکانات سے این ڈی اے خوف زدہ۔۔۔۔ از: سہیل انجم

Source: S.O. News Service | Published on 3rd November 2020, 11:07 PM | اسپیشل رپورٹس |

بہار میں اسمبلی انتخابات کے لیے دو مرحلوں کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے۔ تیسرے مرحلے کی پولنگ سات نومبر کو ہوگی اور دس نومبر کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔ 29 نومبر کو نتیش کمار کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی مدت مکمل ہو جائے گی۔ اس کے بعد جس اتحاد کو اکثریت حاصل ہوگی اس کی حکومت بنے گی۔ انتخابات کے جو بھی نتائج برآمد ہوں، ان کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ کہنے کو تو یہ اسمبلی انتخابات ہیں، ان کا قومی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہار انتخابات کے نتائج کے اثرات قومی سطح پر بھی پڑیں گے۔

بہار اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 243 ہے۔ حکومت سازی کے لیے 122 نشستوں کی ضرورت ہوگی۔ جو اتحاد یہ جادوئی اعداد و شمار حاصل کر لے گا وہ اقتدار کا مالک بن جائے گا۔ اس سے قبل وہاں 2015 میں انتخابات ہوئے تھے۔ اس وقت جنتا دل یو، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس نے بی جے پی کی قیادت والے اتحاد یعنی این ڈی اے کے خلاف ایک محاذ بنایا تھا جسے مہا گٹھ بندھن یا عظیم اتحاد کا نام دیا گیا تھا۔ اس اتحاد کو کامیابی ملی تھی اور اس نے 2017 تک حکومت کی۔ مگر اپنی سیاسی مفاد پرستی کی خاطر نتیش کمار نے اپنی پارٹی کو عظیم اتحاد سے الگ کر لیا اور بی جے پی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد سے وہاں بی جے پی اور جنتا دل یو یعنی این ڈی اے کی حکومت ہے۔ سابقہ حکومت میں راشٹریہ جنتا دل کے تیجسوی یادو نائب وزیر اعلیٰ تھے۔ موجودہ حکومت میں بی جے پی کے سشیل مودی نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ عظیم اتحاد میں اس بار سی پی ایم (مالے) بھی ہے۔

دونوں محاذوں کی جانب سے زبردست انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ عظیم اتحاد کی جانب سے جہاں تیجسوی یادو اور کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے اپنی پوری طاقت لگا رکھی ہے وہیں این ڈی اے کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی، نتیش کمار اور بی جے پی کے متعدد بڑے لیڈر اور وزرا انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اصل مقابلہ پہلے نتیش کمار اور تیجسوی یادو میں تھا لیکن اب جبکہ مودی نے خود کو ریلیوں میں جھونک دیا ہے تو تیجسوی کے مقابلے پر مودی بھی آگئے ہیں۔ عظیم اتحاد کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ بڑے لیڈروں کا ٹوٹہ ہے۔ لیکن اس کے پاس ایشوز ہیں، اٹھانے کے لیے مسائل ہیں اور عوام تک پہنچنے کے لیے حقیقی سوالات ہیں۔

جبکہ این ڈی اے کے پاس کوئی حقیقی ایشو نہیں ہے۔ تیجسوی نے بے روزگاری کو ایک زبردست انتخابی ایشو بنا دیا ہے۔ لیکن نہ تو وزیر اعظم اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی نتیش کمار۔ تیجسوی پہلے نتیش کمار سے سوالات پوچھتے رہے ہیں لیکن اب ان کے سوالات کی توپ کا دہانہ مودی کی جانب مڑ گیا ہے۔ وہ مودی سے روزانہ سوالات پوچھ رہے ہیں اور انھیں ان کے وعدے یاد دلا رہے ہیں۔ لیکن پہلے نتیش ان کے سوالوں کے جواب نہیں دے رہے تھے اور اب مودی نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس وہ دونوں جذباتی ایشوز میں عوام کو پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن زمین پر جو صورت حال ہے اس سے ایسا لگتا ہے بلکہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عوام مودی اور نتیش کے دام و دانہ میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تیجسوی یادو نے انتخابی مہم کے آغاز پر دس لاکھ نوکریاں دینے کا اعلان کرکے انتخابی میدان میں ایک ہنگامہ مچا دیا۔ شروع میں جنتا دل یو اور بی جے پی دونوں کی جانب سے یہ پوچھا جا رہا تھا کہ اتنی نوکریاں کہاں سے دی جائیں گی، پیسہ کہاں سے آئے گا۔ وہ لوگ تیجسوی کے اس اعلان کا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔ لیکن جب بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا تو اس نے 19 لاکھ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اب تیجسوی پوچھ رہے ہیں کہ اگر پیسہ نہیں ہے تو پھر بی جے پی اتنے روزگار کہاں سے دے گی۔ حال ہی میں تیجسوی نے یہ اعلان کرے کہ اگر نیتاؤں کا بجٹ کاٹ کر بھی دس لاکھ نوکریاں دینی پڑیں تو وہ دیں گے، بے روزگار نوجوانوں کو اور اپنے قریب کر لیا ہے۔

دس لاکھ نوکریاں دینے اور پہلی کابینہ میٹنگ میں پہلا آرڈر یہی نکالنے کے تیجسوی کے اعلان نے بے روزگار نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ اب ہر جگہ نوجوان یہی کہہ رہے ہیں کہ تیجسوی دس لاکھ نوکریاں دیں گے، لہٰذا ہم انھی کو ووٹ دیں گے۔ عظیم اتحاد نے لاک ڈاون کے دوران بہار کے عوام کی بد حالی اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں کلو میٹر تک پیدل چل کر بہار پہنچنے کی ان کی مشکلات کو بھی انتخابی ایشو بنایا ہے۔ وہ حکومت سے پوچھ رہا ہے کہ اس وقت وہ کہاں تھی۔ اس نے ان پریشان حال لوگوں کی مدد کیوں نہیں کی۔ بلکہ اس وقت تو نتیش کمار نے اعلان کر دیا تھا کہ کسی کو بھی بہار میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ باتیں بے روزگار نوجوانوں اور یومیہ مزدوروں کو یاد ہیں اور وہ بھی حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ جب انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تو وہ کس منہ سے ان سے ووٹ مانگ رہی ہے۔

اور بھی بہت سے ایشوز ہیں جن کا جواب این ڈی اے کے پاس نہیں ہے۔ اسی لیے اس کے لیڈران اور بالخصوص وزیر اعظم مودی ہوا ہوائی اڑا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس نتیش کمار کے پندرہ برسوں کی حکومت کا حساب کتاب دینے کی جرآت نہیں ہے لہٰذا وہ لالو یادو کے پندرہ برسوں کی حکومت پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ لالو یادو کی حکومت ایک جنگل راج تھا اسے دوبارہ واپس مت آنے دینا۔ نتیش بھی جنگل راج کا نام لے کر عوام کو ڈرا رہے ہیں، مودی بھی، سشیل مودی بھی اور یوگی بھی۔ لیکن یہ لوگ نتیش کمار کے پندرہ برسوں کی حکومت پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ان لوگوں کی جانب سے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر این ڈی اے پھر اقتدار میں نہیں آئی تو خدا جانے کیا ہو جائے گا۔ قیامت آجائے گی یا کیا ہو جائے گا۔ لالو راج کی یاد دلا کر ایک نمائشی خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ لالو راج میں لا اینڈ آرڈر کا وہ مسئلہ نہیں تھا جو ان پندرہ سالوں میں رہا ہے۔ دراصل لالو راج میں اونچی ذات کے ہندووں کے ہاتھوں سے حکومت نکل گئی تھی اور طاقت کا توازن چھوٹی ذات کے ہندووں، پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو گیا تھا۔ جبکہ نتیش کمار کے دور میں ایک بار پھر اونچی ذات کے ہندووں کے ہاتھوں میں اقتدار آگیا۔ اب وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاتھ پھر خالی ہو جائیں اور اقتدار سماج کے دبے کچلے اور ستائے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے۔ اسی لیے وہ جنگل راج کا فرضی ماحول بنا کر اپنے تحفظ کی راہ آسان کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن بہار کے عوام نے فیصلہ کر لیا ہے۔ دو مرحلوں کی پولنگ میں انھوں نے اپنا فیصلہ ای وی ایم میں بند کر دیا ہے اور وہ فیصلہ موجودہ حکومت کو بے دخل کرنے کا ہے۔ لہٰذا این ڈی اے کے لوگ خوف زدہ ہیں اور عظیم اتحاد کی ممکنہ کامیابیوں سے ڈر رہے ہیں۔ اسی لیے وزیر اعظم نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک بار پھر این ڈی اے کی حکومت بن رہی ہے لہٰذا اسی کو ووٹ دیں۔ جبکہ عوام نے اسے مسترد کرنے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...