سادھوؤں کی لنچنگ اور فرقہ وارانہ جنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معصوم مرادآبادی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 26th April 2020, 5:30 PM | اسپیشل رپورٹس |

ذراسوچئے، اگر پال گھر میں سادھوؤں کی لنچنگ کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالنے کی گھناؤنی سازش کامیاب ہوجاتی تو اس وقت ملک میں کیا صورتحال ہوتی؟ ظاہر ہے مسلمانوں کاشکار کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے بھوکے بھیڑئیے ان پر ٹوٹ پڑتے اور مسلمانوں کو اپنی جان ومال اور عزت وآبرو بچانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے۔ پہلے سے ہی اپنی انتہاؤں کو پہنچا ہوا زہریلا ماحول مزید زہریلا ہوجاتا اور مسلمانوں کا گھروں سے نکلنا دشوار ہوجاتا۔پال گھر میں بے قصور سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کے ساتھ جس درندگی اور بربریت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے، اسے دیکھ کر انسانیت ایسے ہی لرزاٹھی ہے جیساکہ اس سے پہلے محمداخلاق، پہلو خان، محمد جنید اور تبریز انصاری وغیرہ کی وحشیانہ لنچنگ پر لرزاٹھی تھی۔ ملک میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ہجومی تشدد کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں،ان سب کاشکار ہونے والے مسلمان تھے، لیکن ان میں سے کسی بھی معاملے میں پولیس اور انتظامیہ نے اتنی سخت کارروائی نہیں کی جتنی کہ پال گھر میں سادھوؤں کی لنچنگ کے بعد کی گئی ہے۔ اس معاملہ میں 100 سے زیادہ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ نے ان کے ناموں کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا کہ” دیکھ لیجئے ان 101 لوگوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے اوریہ فہرست اس لئے جاری کی جارہی ہے کیونکہ اس معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔“ 

اس سے قبل خود مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے پال گھر سانحہ کے فوراً بعد ایک ویڈیو پیغام میں وضاحت کی تھی کہ ”پال گھر سانحہ کا کوئی بھی فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے۔“ انھوں نے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ”اس معاملے میں جو کوئی سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی میں ملوث پایا جائے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔“ ادھو ٹھاکرے نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے اس سلسلہ میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی فون کال کے جواب میں بتادیا ہے کہ اس سانحہ کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو ہرگز نہیں ہے۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پال گھر میں دوسادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کی وحشیانہ لنچنگ کے معاملہ میں بار بار مہاراشٹر حکومت کو یہ وضاحت کیوں کرنی پڑی کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ عینک سے نہ دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسے ہی پال گھر میں ان تین افراد کو ’چور‘ سمجھ کر ہجومی تشدد میں ہلاک کرنے کی خبر عام ہوئی تو سوشل میڈیا پر سنگھ پریوار کی واٹس ایپ یونیورسٹی نے یہ افواہ پھیلاناشروع کردی کہ پال گھر میں مسلمانوں نے سادھوؤں کو ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا ہے ۔ اس افواہ کو اتنے بڑے پیمانے پر عام کیا گیا کہ چند گھنٹوں میں ہی فرقہ وارانہ صورتحال دھماکہ خیز ہوگئی۔وزیر داخلہ امت شاہ سے لے کر اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک کے فون مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے تک پہنچنے لگے اور وہ سادھوؤں کے ساتھ اس درجہ ظلم اور بربریت پر احتجاج درج کرانے لگے۔

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ پال گھر کے جس قصبے میں یہ واردات ہوئی تھی، وہاں دور دور تک مسلم آبادی کا نام ونشان نہیں ہے ۔ یہ علاقہ برسوں سے بی جے پی کا گڑھ ہے۔ یہاں کی گرام پنچایت پر گذشتہ دس سال سے بی جے پی کا ہی قبضہ ہے اور وہاں کی سرپنچ چترا چودھری بھی بی جے پی کی ہیں۔ اتنا ہی نہیں گرفتار ہوئے بیشتر لوگ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مہاراشٹر سرکار کی تیزی اور پھرتی کے نتیجے میں سادھوؤں کے قاتلوں کا پتہ لگ جانے کے باوجود سنگھ پریوار کی افواہ ساز انڈسٹری نے اپنا کام جاری رکھااور اس سانحہ کے اصل مجرموں کو بچانے کی خاطر بے گناہوں کو اس میں پھنسانے کی شرمناک کوششیں جاری رکھیں۔وشو ہندو پریشد کے جنرل سیکریٹری ملند پرانڈے نے کہا کہ ”پال گھر میں کمیونسٹوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ان کا ہندو لیڈروں کا قتل کرانے کی پرانی تاریخ رہی ہے۔“ غرض یہ کہ جانچ کو بھٹکانے اور اصل مجرموں کو چھڑانے کے لئے تمام اچھل کود کی گئی، لیکن اس معاملہ میں وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے جس مستعدی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ اگر وہاں اس وقت بی جے پی کی سرکار ہوتی تو تمام بے قصور لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور اصل مجرم آرام کی زندگی بسر کررہے ہوتے۔جیساکہ شمال مشرقی دہلی کے فساد کے معاملے میں ہوا ہے کہ یہاں پولیس نے ان تمام لوگوں کو فسادیوں کے طور پر حراست میں لے لیا ہے جو دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مہم چلارہے تھے اور جن لوگوں نے اعلانیہ فساد بھڑکایا اور’دیش کے غداروں پر گولیاں برسانے‘ کی باتیں کہیں، وہ پولیس کے تحفظ میں عیش وآرام کی زندگی بسر کررہے ہیں۔دہلی پولیس لاک ڈاؤن میں بھی سی اے اے مخالف سماجی کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے اور انھیں سنگین دفعات کے تحت جیل بھیجا جارہا ہے۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ان واقعات کی تفصیل خود بیان کی ہے جن کی وجہ سے دوبے گناہ سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک دور دراز علاقہ سے ہوکر گجرات جارہے تھے۔ دادر نگر حویلی کی سرحد پر سادھوؤں کو روکا گیا اور انھیں واپس کردیا گیا۔ واپسی میں گڑھ چن چلی علاقہ سے گذرتے ہوئے غلط فہمی کی وجہ سے ان پر حملہ ہوااور ہجوم نے ان کا قتل کردیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا جس گاؤں میں یہ سانحہ ہوا وہاں کچھ دنوں سے رات کے وقت چوروں کے گھومنے کی افواہ پھیلی ہوئی تھی۔اس پورے معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ جس مہاراشٹر صوبے میں ہوا ہے، وہاں اس وقت شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت ہے۔ بی جے پی کو اس بات کاشدید قلق ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی راجدھانی کہی جانے والی ریاست میں اقتدار سے محروم ہے۔ اسی محرومی کا سبب ہے کہ بی جے پی حلقوں نے اس واقعہ کو مخلوط حکومت کو بدنام کرنے اور اسے ہندومخالف قرار دینے کے لئے استعمال کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکمراں بی جے پی کے ترجمان ایک نام نہاد صحافی ارنب گوسوامی نے اس واقعہ کی آڑ میں کانگریس صدر سونیا گاندھی پر رکیک حملے کئے ہیں۔

اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پال گھر سانحہ کے اصل مجرموں کو گرفتار کرنے میں ریاستی حکومت نے کوتاہی نہیں کی اور سنگھ پریوار کی واٹس ایپ یونیورسٹی نے جانچ کو بھٹکانے کی جو کوشش کی تھی،وہ بروقت بے نقاب ہوگئی ورنہ اس واقعہ کا رخ جس اندازمیں مسلمانوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ ایک انتہائی خطرناک سازش تھی۔ کاش ہجومی تشدد میں ہلاک ہونے والے محمد اخلاق، محمد جنید، پہلو خان اور تبریز انصاری جیسے پچاس سے زیادہ مسلم نوجوانوں کے قاتلوں کو بھی اتنی سرعت کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہوتا تو آج پال گھر جیسا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ کیونکہ ملک میں اب تک ہجومی تشدد کے مجرموں کے ساتھ جو نرمی برتی گئی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کسی کو بھی ہجومی تشدد میں ہلاک کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور ایسا کرنے والا قانون کے ہاتھوں سے بچ جاتا ہے۔ملک میں لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کرنا اور انصاف کے دوپیمانے اختیار کرنا پورے سماج کے لئے تباہ کن ہے۔پال گھر کا سانحہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...