ہندوستانی فوجی جنرل نے جمہوری لائن آف کنٹرول کو پھلانگ دیا .... تحریر: مولانا محمد برہان الدین قاسمی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 2nd March 2018, 11:44 PM | اسپیشل رپورٹس |

ہندوستانی افواج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے سیاسی جماعتوں پر تبصرہ کر کے ۲۱ فروری، بروز بدھ ملک میں ایک غیر ضروری طوفان برپا کر دیا۔ مولانا بدرالدین اجمل کی نگرانی میں چلنے والی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ آسام کی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ جنرل بپن راوت نے دعوی کیاہے کہ اے آئی یو ڈی ایف نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے بھی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے۔ چونکہ راوت بنگلہ دیشی دراندازی کے سلسلے میں بات کر رہے تھے، اس سے یہ سمجھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے کہ اے آئی یو ڈی ایف نے ان کے خیال میں اس مبینہ دراندازی کے نتیجےمیں ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔

اس موقع سے فوجی سربراہ نے یقینا عوامی حکومت اور فوجی پیشہ وارانہ خدمات کے مابین پائی جانے والی لائن آف کنٹرول کو پھلانگ دیاہے۔ ان کےاس تبصرے کو بالعموم میڈیا اور ہندوستانی تھنک ٹینک نے مثبت انداز میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد بجا طور پر ملک کے ہر گوشے سے اس کےرد عمل کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا، اس لئےکہ ہندوستان دنیا کے مضبوط جمہوری ممالک میں سے ایک ہے جہاں پاکستان، میانمار اور چائنا جیسے پڑوسی ممالک کے برخلاف فوج اور شہری سیاست کا دائرہ کار واضح طور پر مختلف اور اس پر سختی سے عمل بھی کیا جاتاہے۔

آن لائن نیوز پورٹل اسکرول ڈاٹ ان نے ایک تفصیلی مضمون میں مندرجہ ذیل باتیں درج کی ہیں:

"جنرل راوت نے مبینہ دراندازی کو "لیبن سروم" کا عمل قرار دیاہے۔ "لیبن سروم" جرمن زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہے "قابل رہائش مقام"۔ اس سے مراد وہ نظریاتی اصول ہے جس کو جرمن نازیوں نے علاقائی توسیع کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہیں پہ بس نہیں، بلکہ جنرل راوت نے بنگلہ دیشی دراندازی کے لئے پاکستان اور چائنا کو مورد الزام ٹھہرایاہے۔

لیبن سروم، چائنا، بنگلہ دیش، پاکستان اور اے آئی یو ڈی ایف: اس میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن جو بات کہی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ باتیں کس نے کہیں؟ ہندوستانی افواج کے سربراہ کا بھارت کی ایک سیاسی جماعت پر منفی تبصرہ کرنا یا بھارت کے پڑوسی ممالک کی خارجہ پالیسی پر کوئی بات کہناانتہائی غیر معمولی ہے۔ بد قسمتی سے یہ ایک اکلوتا واقعہ نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی افواج کی سیاست کاری کے طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بڑھتا ہوا رجحان یہ ہے کہ فوج صرف ایک جنگی طاقت رہنے کے بجائے عوامی مباحثے میں ایک فریق بن گئی ہے۔ تاہم یہ بات کسی بھی جمہوریت کے لئے پریشان کن ہو سکتی ہے جس میں سیاست خالصتا عوام کے دائرہ کار میں آتی ہے۔"

اے آئی یو ڈی ایف کے سیاسی حریف اور صوبہ آسام کے سابق وزیر اعلی ترون گگوئی نے بھی مولانا بدرالدین اجمل کی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت پر جنرل بپن راوت کے ذریعے کئے گئے تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فوی سربراہ کو سیاسی جماعتوں پر تبصرے کے عمل میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔

اے این آئی نے گگوئی کا اقتباس یوں درج کیا ہے: "آزادی کے بعد سے ہم نے کسی بھی فوجی سربراہ کو سیاسی جماعتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ فوج کی بنیادی ذمہ داری ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنا اور دشمنوں کی جانب سے ہونے والے کسی بھی حملے کو ناکام کرنا ہے۔" انھوں نے مزید کہا کہ "سیاسی امور پر نظر رکھنا فوج کا کام نہیں ہے۔"

"سبکدوشی کے بعد فوج کے کسی بھی جنرل یا سربراہ کو پانچ سالوں تک سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ وہ یہ کام پانچ سالوں کے بعد کر سکتے ہیں۔" گگوں نے کہا۔

انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بھی فوجی سربراہ کے بیان پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کسی بھی سیاسی جماعت پر تبصرہ کرنا ان کا کام نہیں ہے۔

اے آئی یو ڈی ایف کے صدر اور دھوبڑی سے رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے جنرل راوت کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی سربراہ کا سیاست میں کود پڑنا انتہائی افسوسناک ہے۔ جنرل بپن راوت نے ایک سیاسی بیان دیا ہے جو تکلیف دہ ہے۔ یہ فوجی سربراہ کے لئے فکرمندی کا باعث کیوں ہے کہ جمہوری اور سیکولر اقدار پر مبنی ایک سیاسی جماعت بی جے پی سے زیادہ تیز رفتاری سے ابھر رہی ہے؟ مولانا نے شوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر پر کئے گئے اپنے پوسٹ میں کہا کہ "اے آئی یو ڈی ایف اور عاپ جیسی متبادل سیاسی جماعتیں ابھر رہی ہیں، تو اس کی وجہ بڑی پارٹیوں کی بد انتظامی ہے۔ ایسے تبصرے کر کے کیا فوجی سربراہ سیاست میں نہیں کود رہے ہیں جو آئین کے ذریعے متعین کئے گئے ان کے دائرہ عمل سے خارج ہے؟"

حقائق کے اعتبار سے جنرل راوت غلط ہیں:

مسلمانوں کی زیر قیادت چلنے والی ایک سیاسی جماعت کی تیز رفتار ترقی کومبینہ طور پر بنگلہ دیش سے مسلمانوں کی "منصوبہ بند" دراندازی سے جوڑ کر جنرل راوت نےجس طرح زائد از ضرورت فکر مندی کا اظہار کیا ہے، اور اس کو ملک کی سالمیت سے متعلق ایک سنسنی خیز مسئلہ بنا کر پیش کرنے جو کوشش کی ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ ۳ء۱۲ کروڑ آبادی والے صوبہ آسام میں ۱ء۶ کروڑ مسلمان ہیں جو صوبے کی کل آبادی کا ۳۴ء۲۲ فیصد ہے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ۳۲ میں سے ۹ اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

مسلم آبادی میں یہ اضافہ ہندووں کی نسبت سے زیادہ ہے، تاہم اسی صوبے میں ایک ہی مدت میں اگر مسلمانوں کی شرح افزائش کو دیکھا جائے تو یہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے مقابلے کم ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں شرح افزائش بالکل معمول کے مطابق ہے جس کی وجہ مسلمانوں میں مناسب تعلیم کا فقدان، غربت اور بہترین شرح افزائش ہے، اس کی وجہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے قانونی یا غیر قانون دراندازی ہر گز نہیں ہے۔ اس حقیقت کو گوہاٹی یونیورسٹی کے اعداد ا شمار کےسابق استاد پروفیسر عبد المنان نے اپنی کتاب “Infiltration: Genesis of Assam Movement” میں پورے شرح و بسط کے ساتھ معقول دلائل سے ثابت کیا ہے۔

کل ہند پیمانے پر ۱۹۷۱ سے ۱۹۹۱ کے درمیان مسلمانوں کی شرح افزائش ۷۱ء۴۷ فیصد رہی ہے، جب کہ صوبہ آسام میں اس دورانیہ میں مسلمانوں کی شرح افزائش معمولی فرق کے ساتھ ۷۷ء۴۲ رہی ہے۔ اسی دورانیہ میں آسام میں ہندووں کی شرح افزائش ۴۲ء ۰۰ فیصد، درج فہرست قبائل کی شرح افزائش ۷۸ء۹۱ فیصد اور درج فہرست ذاتوں کی شرح افزائش ۸۱ء۸۴ فیصد رہی ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کی شرح افزائش آسام میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تو کیا درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے اضافی افراد بھی بنگلہ دیش سے درانداز ہوئے ہیں ؟

اہم بات یہ ہے کہ ۱۹۷۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران ہندوستان کے کچھ دیگر صوبوں میں مسلمانوں کی شرح افزائش آسام کے مقابلےبہتر ہے۔ مثلا ہماچل پردیش میں ان کی شرح افزائش ۷۷ء۶۴فیصد، مہاراشٹرا میں ۸۰ء ۱۵ فیصد، مدھ پریش میں ۸۰ء ۷۶ فیصد، ہریانہ میں ۸۸ء ۳۶ فیصد، راجستھان میں ۹۸ء ۲۹ فیصداور پنجاب میں ۱۱۰ ء ۳۲ فیصد رہی۔ تو کیا بھارت کے ان شمالی اور مرکزی صوبہ جات میں بھی مسلمان غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے درانداز ہوئے؟

صوبہ آسام میں مسلمانوں کی غیر معمولی شرح افزائش پر فکرمندی کا اظہار کرنا ایک دھوکہ ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے اس پروپیگنڈے کی اصلیت بار بار واضح ہو چکی ہے، مگر جن سیاسی پارٹیوں کو اس معاملے کو اٹھانے میں پولرائزیشن کا فائدہ نظر آتا ہے وہ اس کو انتخابی تشہیر کے لئے ایک مواد کے طور پر استعمال کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ایک فوجی سربراہ کو اس طرح کے سلگتے ہوئے سیاسی موضوعات پر عوامی بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔

اے آئی یو ڈی ایف کی ترقی اعداد و شمار کی روشنی میں:

مولانا بدرالدین اجمل کی صدارت والی سیاسی جماعت آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا قیام ۲/ اکتوبر ۲۰۰۵ کو عمل میں آیا۔ ۲۰۰۶ میں صوبہ آسام کا اسمبلی انتخاب اس کے لئے سب سے پہلا انتخابی مورچہ تھا، جس میں کانگریس کو ۵۳ سیٹوں کے ساتھ اکثریت ملی تھی۔ کانگریس نے کل ۱۲۰ سیٹوں پر الیکشن لڑتے ہوئے ۳۱ء۰۸فیصد ووٹ شیر حاصل کیا۔ بی جے پی ۱۲۵ پر لڑی جس میں سے ۱۰ سیٹیں اس کو ملی، جب کہ اس کا ووٹ شیر ۱۱ء۹۸ فیصد رہا۔ اے آئی یو ڈی ایف نے ۶۹ سیٹوں پر الیکشن لڑتے ہوئے ۱۰ سیٹیں حاصل کی اور اس کا ووٹ شیر ۹ء۰۳ فیصد رہا۔ واضح رہے کہ آسام میں کل ۱۲۶ /اسمبلی حلقے ہیں۔

۲۰۱۱ میں بھی کانگریس نے ۱۲۶ میں سے ۷۸ سیٹیوں پر قبضہ کر کے واضح اکثریت حاصل کی، جب کہ اس کا ووٹ شیر ۳۹ء ۳۹ رہا۔ بی جے پی کو ۱۲۰ میں سے ۵ سیٹیں ملیں اور اس کا ووٹ شیر ۱۱ء۴۷ فیصد رہا۔ اے آئی یو ڈی ایف کو ۷۸ میں سے ۱۸ سیٹیں ملیں اور اس کا ووٹ شیر ۱۲ء۵۷ فیصد رہا۔

۲۰۱۶ کے آسام الیکشن میں بی جے پی نے پہلی بار صوبے میں ۸۹ میں سے ۶۰ سیٹیوں پر قبضہ کر کے واضح اکثریت حاصل کی ،اور اس کا ووٹ شیر ۲۹ء ۵۱ فیص رہا۔ کانگریس کو ۱۲۲ میں سے صرف ۲۶ سیٹیں ملیں، اس کاووٹ شیر ۳۰ء ۹۶ فیصد رہا۔ اے آئی یو ڈی ایف ۷۴ میں سے صرف ۱۳ سیٹیں جیت سکی اور اس کا ووٹ شیر ۱۳ء۰۵ رہا۔

آسام میں لوک سبھا کی کل ۱۴ سیٹیں ہیں۔ ۲۰۰۹ کے عام انتخابات میں کانگریس کو۷، بی جے پی کو۴ اور اے آئی یو ڈی ایف کو صرف۱ سیٹ ملی جس سے مولانا بدرالدین اجمل پہلی بار پارلیمنٹ گئے۔ ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں بی جے پی کو ۷، کانگریس کو ۳ اور اے آئی یو ڈی ایف کو ۳ سیٹیں ملیں۔ اے آئی یو ڈی ایف کے موجودہ ممبران پارلیمنٹ دھوبڑی سے دوبارہ جیتنے والے مولانا بدرالدین اجمل، بارپیٹا حلقے سے ان کے چھوٹے بھائی جناب سراج الدین اجمل اور کریم گنج حلقے سے مسٹر رادھے شیام بسواس ہیں۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میں ایک طفل مکتب بھی صوبہ آسام میں اے آئی یو ڈی ایف کی سیاسی ترقی کا موازنہ نہایت آسانی کے ساتھ بی جے پی سے کر سکتا ہے۔ ۵ ممبران اسمبلی رکھنے والی بی جے پی صرف پانچ سالوں کے بعد ۲۰۱۶ میں۶۰ سیٹیں جیت کر اقتدار میں آجاتی ہے۔ جب کہ اے آئی یو ڈی ایف کے ۲۰۱۱ میں ۱۸ ممبران اسمبلی تھے، لیکن ۲۰۱۶ میں صرف ۱۳ رہ گئے۔ کیا اے ائی یو ڈی ایف کے کچھ ووٹرس ۲۰۱۱ کے بعد بنگلہ دیش بھاگ گئے تھےاور ۲۰۱۶ میں ووٹ دینے واپس نہیں آئے؟یہ سوال یقینا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ تو پھر ایک سنجیدہ اوروردی میں رہنے والا ذمہ دار شخص عوام میں اس طرح کےدلائل کس طرح پیش کر سکتا ہے جس سے عوام میں بے چینی اور بے جا بحث کا سلسلہ چھڑجائے؟

مسلمانوں کا تناسب آسام میں ۳۴ فیصد سے زیادہ ہے اور ۲۰۱۶ میں اے آئی یو ڈی ایف کو کل ۱۳ فیصد ووٹ ملے، جو صوبے میں مسلمانوں کی کل آبادی کا نصف بھی نہیں ہے، یہ بھی اس وقت کی بات ہے جب کہ یہ مان لیا جائےکہ اے آئی یو ڈی ایف کے ووٹرس صرف مسلمان ہیں جو بہرحال بالکل غلط خیال ہے۔ اس پارٹی کے پاس آسام کے تمام حلقوں میں ووٹرس کی ایک اچھی تعداد ہے، تاہم مسلمان ان میں زیادہ تعداد میں ہیں۔ کارگزار صدر سے لے کر ایم پی ، ایم ایل اےاور پارٹی عہدیداروں کی فہرست اس بات کی گواہ ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم، مرد اور عورت، زیر فہرست قبائل اور زیر فہرست ذات سب کے سب اس فہرست میں شامل ہیں۔ چنانچہ فوجی سربراہ کے بیان کے بارے میں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ "غلط"ہے۔

یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ حکومت میں فوجیت کسی بھی جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔ سیاست صرف اور صرف خیالات کے تقابل پر مبنی ہونی چاہیے۔ بی جے پی اور اے آئی یو ڈی ایف سیاسی جماعتیں ہیں، اور یہ دونوں جماعتیں جمہوری طریقے سےعوامی مقابلے جیتیں یا ہاریں اس میں فوج کا دخل دینا قطعا روا نہیں ہے۔ مسلح فوج کو قومی سالمیت کے حوالے سے بڑی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ سیاست میں ان کے قدم رکھنے کو پسند نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے زمانہ قیام سے تقریبا آدھی عمر تک پاکستان پر فوج نے حکومت کی۔ تاہم یہ بات پاکستانی عوام بھی مانتی ہے کہ فوجی حکومت و عسکریت پسندی نے پاکستان کو پیچھے کر دیا ہے، جب کہ سنجیدہ جمہوری طریقہ کار نے ہندوستان کو آگے بڑھنے میں مدد کیا ہے۔ اس لئے بھارت اور اس کی فوج کو ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں ان میں پاکستانی روش نہ آجائے۔ ہم اپنے ملک کو چائنا یا میانمار بھی نہیں بننے دے سکتے۔

مضمون نگارمولانا برہان الدین قاسمی ممبئی میں مقیم ٰآسامی باشندہ ہیں اورانگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر ہیں۔اس انگریزی مضمون کا اُردو ترجمہ حفظ الرحمن قاسمی نے کیا ہے، جسے ہو بہو یہاں شائع کیا گیاہے۔ (ادارہ)

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...