حالیہ الیکشن اور مسلمانوں کا لائحہ عمل۔۔۔۔از:ایس ۔ایم۔ ملک، ممبئی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 8th February 2017, 3:22 PM | مہمان اداریہ |

حالیہ ریاستوں اور ممبئی کے الیکشن کا بگل بج چکا ہے اور مسلمانوں میں اس بات کو لے کر کافی ہل چل بھی ہے کہ کس کوووٹ دیا جائے؟ ۔بی جے پی کے لئے یہ الیکشن اس لئے بے حد اہم ہے کہ اس الیکشن کی جیت خاص کریوپی،پنجاب،گوا،اس کے لئے کے الیکشن کو جتانے میں اہم رول ادا کرے گی۔ اس نے بہار میں نتیش کو واپس اپنے پالے میں کرلیا ہے۔ اور سماجوادی میں بھی دلوں کا بٹوارہ کردیا ہے۔ بی جے پی کے حوصلے پہلے ہی سے بلند ہیں اس نے نوٹ بندی کے باوجود بھی مہاراشٹر میں ہونے والے پنچایت الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اور مہاراشٹر میں کئی مراٹھا لیڈران وعوام بی جے پی سے جڑتے جارہے ہیں۔مسلم پرسنل لاء بورڈ اور علماء دیوبند کا یہ فیصلہ کہ وہ آنے والے الیکشن میں کسی کے بھی حق میں فیصلہ نہیں کریں گے سپریم کورٹ کے آرڈر کے عین مطابق ہے کہ جس میں سپریم کورٹ نے مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کو غلط قراردیاہے۔ اوریہ بات قابل ستائش ہے ۔ حالیہ الیکشن کو لے کر مسلمانوں کی بیچینی کو سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ سیکولرزم کے نام پراب تک جتنے لوگوں نے ان کا ووٹ حاصل کیا اور انہیں ووٹ بینک بناکر رکھا اور ان کی ترقی کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا۔ مسلمانوں کی حالت زار سچر کمیٹی رپورٹ نے ظاہر کردی ہے۔سیکولر پارٹیوں کی دھوکہ دہی سے تنگ آکر مسلمانوں کی کئی نئی پارٹیاں بھی سیاست میں اتر گئی ہیں اور پہلے سے موجود ایم آئی ایم بھی اپنے پیر تیزی سے پھیلانے جارہی ہے۔خاص طور پر مہاراشٹر میں وہ اپنا پیر جما رہی ہے۔ اس کے مہاراشٹر اسمبلی میں دو ممبران اور ممبران پنچایت الیکشن میں جیت چکے ہیں۔ اسد الدین اویسی مسلم نوجوانوں اور سوشل میڈیا میں کافی مقبول ہیں۔ نوجوان اس سے کافی تعداد میں جڑے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی مسلم نوجوانوں نے اپنے اکابرین کی باتوں کے خلاف جاکر عام آدمی پارٹی کے لئے بڑھ چڑھ کرووٹنگ کی تھی جس کے نتیجے میں آج آپ پارٹی جسے لوگ ووٹ کاٹنے والی پارٹی کہتے تھے دہلی میں حکومت کررہی ہے۔اس کا مطلب مسلم نوجوان بدلاو چاہتے ہیں اور مسلم لیڈران حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔

مسلمان نئی پارٹیوں کو ووٹ کٹوا سمجھنے کی بجائے ایک بہتر متبادل سمجھ کر اس کے اچھے امیدواروں کو بے فکر ووٹ کریں اور سیکولر پارٹیوں کے خوف کے جال کو توڑ دیں کہ فلاں کو ووٹ دینے سے بی جے پی یا شیوسینا آجائے گی ۔ یہ ووٹوں کا بٹوارہ روکنا اور کمتر برائی کو چننا خوف کی سیاست ہے، اس جال کو توڑنا بے حد ضروری ہے اور یہ حکمت عملی بھی قلیل مدتی ہے کہ ووٹوں کے بٹوارے کو روکا جائے ۔ افسوس ہے کہ یہ جال سیکولر پارٹیوں ، مسلم لیڈران، علماء و دانشوران نے مل کر بُنا ہے۔

طویل مدتی حکمت عملی یہ ہے کہ ہم فرقہ پرست پارٹیوں کو چھوڑ کر جس کے لئے بھی ووٹ کریں وہ احتساب کے بل پر ہونا چاہئے ۔ اگر کسی امید وار نے ہمارا ووٹ لے کر ہمارا کام نہیں کیا تو اگلی بار اس کو موقع نہیں دینا چاہئے ۔ تبھی جاکر ہم ان سیاسی پارٹیوں اور امید واروں کے دلوں میں اپنا خوف پیدا کر سکتے ہیں کہ مسلم علاقوں میں یا ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر اگلی مرتبہ یہ ہمیں اپنا ووٹ نہیں دیں گے ۔

یوپی میں جو حالات ہیں اس میں مسلمان تذبذب کا شکار ہے کیونکہ ان کا ووٹ بیحد اہم ہے اور بقول سینئر صحافی سواتی چترویدی یوپی میں مسلمان ۰ سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت کے مالک ہیں ۔ سماجوادی پارٹی نے ان کی ترقی کے لئے کئے گئے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا بلکہ یکے بعد دیگرے ہوئے فسادات خاص کر مظفرنگر اور اخلاق کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ ووٹ بینک والا وہی کھیل کھیلا جو کانگریس ہمیشہ سے کھیلتی آئی ہے۔ کم ازکم یوپی کے مسلمانوں کو ان مسلم ایم ایل اے کو معاف نہیں کرنا چاہئے اورکراری شکست دینا چاہئے جو محض مسلم ووٹوں کے بل بوتے پر چن کر آئے اور برے وقتوں میں اپنی قوم کی حفاظت کرنے اور انصاف دلانے میں ناکام رہے ہیں ۔مسلمان یوپی میں اٹھارہ فیصدہیں اور یادو سے نوفیصد ہیں اس کے باوجود بھی یادو مسلم ووٹ کے بل پر حکومت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو انصاف اور تحفظ کے حصو ل کے لیے ان کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے رہنا پڑتا ہے، شاید مسلمانوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اس طرح کے تناسب کے بل پر یا نئی سوشل انجیئرنگ کے ذریعے وہ خود بھی حکومت کرسکتیہیں ۔ صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ یا تو ہمارے اکابرین کے پاس ایسا کوئی خواب ہی نہیں ہے یا پھر ہم خود حکومت چلانے کے اہل نہیں ہیں ۔ کیا ہمارے پاس ایسا کوئی ویژن ہے؟۔بی جے پی کی حکومت اور کسی اور فرقہ پرست پارٹی کی حکومت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج بی جے پی ملک اور دنیا میں پوری طرح سے بینقاب ہوگئی ہے کہ وہ حکومت میں آنے پر کس طرح جمہوریت، آزادی ، مساوات اور فرقہ وارانہ یکجہتی کو نقصان پہونچا سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ کسی پارٹی کا ووٹ بینک بننے کے بجائے ایسے ایماندارمید وار کو ترجیح دیں جو ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرسکے، اور انہیں ملک کے وسائل میں حصہ داری اور انصاف دلاسکے۔

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔