برطانوی وزیر اعظم کو درپیش قیادت کا چیلنج: کیوں اور کیسے؟
لندن :12/دسمبر(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)برطانوی پارلیمان کے ارکان نے قدامت پسند وزیر اعظم ٹریزا مے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی ہے، جس پر رائے شماری آج بدھ بارہ دسمبر کو ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تحریک پیش کیے جانے کے بعد اب ہو گا کیا ۔برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے اسی ہفتے پیر کا دن یورپ کے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران اپنے بریگزٹ کے منصوبے کو بچانے کی کوششیں کرتے ہوئے گزارا۔ منگل کے روز لندن میں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان پارلیمان نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔اس کے علاوہ اسی ہفتے وزیر اعظم مے نے ملکی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل پر مجوزہ رائے شماری اس وجہ سے مؤخر کر دی تھی کہ انہیں شدید خدشہ تھا کہ ان کی حکومت نے یورپی یونین کی قیادت کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد جو ڈیل طے کی ہے، اس کی برطانوی پارلیمان سے منظوری کے لیے رائے شماری میں اس معاہدے کو مسترد کر دیا جائے گا۔برطانوی پارلیمان میں قدامت پسند یا ٹوری پارٹی کے 15 فیصد ارکان اگر ’کمیٹی 1922‘ کے سربراہ کو خط لکھ دیں، تو پارٹی لیڈر کی قیادت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اسے اپنے لیے اپنی ہی پارٹی کے منتخب ارکان کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑ جاتا ہے۔اس وقت لندن کی پارلیمان میں ٹوری پارٹی کے ارکان کی تعداد 315 ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 48 منتخب ارکان کمیٹی چیئرمین کو خط لکھتے ہیں، تو وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کرنے کی کم از کم لازمی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے آج بدھ بارہ دسمبر کے روز یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا کہ ٹوری ارکان پارلیمان کی تعداد کی یہ کم از کم حد عبور ہو گئی ہے۔یورپی یونین کے بارے میں قنوطیت پسندانہ سوچ کے حامل اور بریگزٹ کے حامی رہنما جیکب ریس موگ وہ پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے نومبر کے وسط میں ہی یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ مے کو نئے سرے سے اپنی پارٹی کے پارلیمانی ارکان کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے۔ اس بارے میں ریس موگ نے ایک باقاعدہ خط بھی لکھ دیا تھا۔اسی طرح سابق وزیر اوئن پیٹرسن نے بھی بدھ ہی کے روز کہہ دیا کہ جو معاہدہ مے حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ کیا ہے، اس کے تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت نے 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم میں عوام کے تاریخی جمہوری فیصلے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہ کیا، تو یہ ایک المیہ ہو گا۔ٹریزا مے کے خلاف پارٹی لیڈر کے طور پر تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے فوری بعد کئی سرکردہ ارکان کابینہ نے ملکی وزیر اعظم کے لیے تائید و حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان میں تعمیرات اور پینشن سے متعلقہ امور کے وزیر ایمبر رَڈ، وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ اور وزیر داخلہ ساجد جاوید نمایاں تھے۔اگر ٹریزا مے کو اعتماد کا ووٹ حاصل ہو گیا، تو وہ آئندہ بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ سکیں گی اور اگلے ایک سال کے لیے ان کے خلاف دوبارہ کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن اگر مے کو کوئی بہت واضح اکثریت نہ ملی، تو وہ پارٹی لیڈر کے طور پر اپنے عہدے سے دستبرداری کا اعلان بھی کر سکتی ہیں۔اگر اس رائے شماری میں ٹریزا مے ناکام رہیں، تو انہیں مستعفی ہونا پڑے گا اور وہ پارٹی لیڈرشپ کے لیے الیکشن میں دوبارہ حصہ نہیں لے سکیں گی۔ اس ممکنہ عمل کے لیے چھ ہفتے تک کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس عرصے کے دوران ٹریزا مے عبوری سربراہ حکومت رہیں گی۔ پھر جس کسی بھی سیاستدان کو ان کا جانشین منتخب کیا جائے گا، وہی نیا وزیر اعظم بھی ہو گا۔ اس تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ برطانیہ میں خود بخود نئے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔